بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احصار کا حکم


سوال

ہمارے ایک ساتھی کو عمرے کے لیے 28 اپریل 2022 کو سعودی عرب جانا تھا ،جیسا کہ سعودی عرب میں رہنے والے حضرات کو پرمٹ لینا ضروری ہوتا ہے، جس کے ذریعے حرم میں جانے کہ اجازت ہوتی ہے. مگر ساتھی کو دن کے اعتبار سے غلطی ہو گئی اور وہ 22 اپریل 2022 کو عمرہ کے لیے چلا گیا، مگر راستے میں چیک پوسٹ میں اس کو روک دیا گیا اور واپسی پر گھر بھیج دیا گیا تو اب اس نے گھر آنے کے بعد عمرے کا احرام بنا عمرہ کیے ہی اتار دیا ہے تو آیا کیا ایسی غلطی پر دم دینا ضروری ہے ؟ یا عمرہ کی قضا کافی ہو گی ؟ نیز اگر کوئی دم نہیں دے سکتا ہے ؟ تو دم کی جگہ اس کا کفارہ اور کیا ہو گا ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکوہ شخص نے عمرہ کے لیے احرام باندھا، لیکن راستہ میں چیک پوسٹ پر روک  کرواپس بھیج دیا گیا تو  اسے چاہیے تھا کہ اگر قریب ہی مدت میں عمرہ کرنے  پر قدرت  کا امکان تھا تو وہ انتظار کرتا، اور   عمرے پر قدرت حاصل ہوتے ہی  عمرہ کر کے حلق کر واکر حلال ہوجاتا،  لیکن مذکورہ شخص نے گھر آکر احرام کے ممنوعات کا ارتکاب کیا تو اس صورت میں اس پر عمرے کی قضا  اور  حدودِ حرم میں دم دینا بھی لازم ہے،   اگر  ابھی دم دینے کی طاقت نہ ہو تو  جب بھی دم دینے کی طاقت ہو گی دم دیا جائے گا،  اس وقت تک تو بہ واستغفار کرتار ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(‌وأما ‌حكم ‌الإحصار) ‌فهو ‌أن ‌يبعث ‌بالهدي أو بثمنه ليشتري به هديا ويذبح عنه وما لم يذبح؛ لا يحل وهو قول عامة العلماء سواء شرط عند الإحرام الإهلال بغير ذبح عند الإحصار أو لم يشترط، ويجب أن يواعد يوما معلوما يذبح عنه فيحل بعد الذبح ولا يحل قبله حتى لو فعل شيئا من محظورات الإحرام قبل ذبح الهدي يجب عليه ما يجب على المحرم إذا لم يكن محصرا، وأما الحلق فليس بشرط للتحلل في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وإن حلق فحسن، كذا في البدائع.

 المحصر إذا كان لا يجد الهدي ولا ثمنه لا يحل بالصوم عندنا، كذا في السراج الوهاج إن حل في يوم وعده على ظن أنه ذبح هديه عنه في ذلك اليوم ثم علم أنه لم يذبحه كان محرما وعليه دم لإحلاله قبل وقته ولو ذبح الهدي قبل يوم الوعد جاز استحسانا، كذا في غاية السروجي شرح الهداية."

(كتاب المناسك، الباب الثاني 1 /255،  ط:دارالفكر)

الدر المختار و حاشية ابن عابدين میں ہے: 

"(وإن طيب أو حلق) أو لبس (بعذر) خير إن شاء

(قوله: بعذر) قيد للثلاثة وليست الثلاثة قيدا، فإن جميع محظورات الإحرام إذا كان بعذر ففيه الخيارات الثلاثة كما في المحيط قهستاني، وأما ترك شيء من الواجبات بعذر فإنه لا شيء فيه على ما مر أول الباب عن اللباب وفيه: ومن الأعذار الحمى والبرد والجرح والقرح والصدع والشقيقة والقمل، ولا يشترط دوام العلة ولا أداؤها إلى التلف بل وجودها مع تعب ومشقة يبيح ذلك، وأما الخطأ والنسيان والإغماء والإكراه والنوم وعدم القدرة على الكفارة فليست بأعذار في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا، أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته. اهـ. وما في الظهيرية من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف كما في البحر."

(کتاب الحج ،باب الجنایات، 2 / 557،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں