بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احسن الفتاوی کے ایک مسئلہ کے متعلق اشکال کا جواب


سوال

 حضرات مفتیانِ  کرام اس مسئلہ میں دوبارہ تحقیق فرمائیں کہ  رضاعی ماں کے دوسرےشوہر کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ احسن الفتاوی ج:5، ص :78 ،پر یہی مسئلہ’’ ربیبہ رضاعیہ‘‘ کے عنوان کے تحت مذکورہے اور  وہاں مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے ربیبہ رضاعیہ کو محرم لکھا ہے ،مہربانی فرما کر مسئلہ کو ضرور حل فرمائیں!

جواب

احسن الفتاوی میں  ’’ربیبہ  رضاعیہ ‘‘   کے عنوان کے تحت  جو مسئلہ مذکور ہے،  وہ مسئلہ تحقیق و حوالے کے اعتبار سے صحیح اور درست ہے، باقی سہولت اور تفہیم کی غرض سے مذکور ہ فتویٰ  نقل کرکے   اس پر مستزاد چند سطور  لکھی جاتی ہیں:

احسن الفتاوی میں حضرت مفتی صاحب سے سوال ہواہے:

’’ اگر کسی شخص نے عورت ذاتِ لبن کو طلاق دی، اس عورت نے کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلایا،پھر اس مرضعہ نے زوجِ ثانی سے نکاح کیا، تویہ رضعیہ زوجِ ثانی کےلیے حلال ہوگی؟قیاس تو حرمت کو چاہتاہے، کیونکہ لبن اگرچہ زوجِ ثانی سے نہیں ہے، مگر یہ رضعیہ زوجِ ثانی کے لیے ربیبہ کے حکم میں ہے،شامیہ ،ج:2،ص:422پر درِمختارکی یہ عبارت "طلق ذات لبن فاعتدت وتزوجت بآخرفحبلت وأرضعت فحكمه من الأول ،لأنه منه باليقين فلايزول بالشك ويكون ربيبا للثاني "بھی اسی پر دال ہے،مگرشامیہ میں اسی موقع پر (قولہ فتح)کے تحت صورتِ مسئولہ میں حلت تحریر فرمائی ہے:۔۔۔"وأن ما في الخلاصة من أنها لو رضعت لا بلبن الزاني ‌تحرم ‌على ‌الزاني. مردود لأن المسطور في الكتب المشهورة أن الرضيعة بلبن غير الزوج لا تحرم على الزوج كما تقدم في قوله طلق ذات لبن إلخ. وكلام الخلاصة يقتضي تحريمها بالأولى"نیزشامی نے طلق ذات لبن الخ سے حلت ثابت کی ہے، حالاں کہ اسی عبارت سے حرمت ثابت ہوتی ہے ، کیو نکہ اس عبارت میں زوجِ ثانی کےلیے زبیب ہونے کی تصریح ہے۔‘‘

حضرت مفتی صاحب نے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایاہے:

’’ یہ لڑکی زوجِ ثانی کے لیے ربیبہ ہے، اس لیے بیوی سے وطی کے بعد اس پر حرام  ہوجائے گی، قبل الدخول حرام نہیں،و أن المسطورفي الكتب المشهورة الخ"میں حرمتِ لبنِ فحل کی نفی مقصود ہے،ربیبہ ہونے کی وجہ سے بعد الدخول حرمت ثابت ہوجائے گی۔۔۔الخ"

مذکورہ جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ لڑکی زوجِ ثانی کے حق میں ربیبہ کے حکم میں ہے، اور ربیبہ زوجِ ثانی پر تب حرام ہوجاتی ہے، جب زوجِ ثانی اس کی والدہ سے وطی کرے ،وطی کرنے سے پہلے اس پر حرام نہیں ہوتی،مذکورہ عبارت  "لأن المسطور في الكتب المشهورة أن الرضيعة بلبن غير الزوج لا تحرم على الزوج كما تقدم في قوله طلق ذات لبن إلخ"کامقصدبھی یہی ہے کہ زوجِ ثانی نے جب اس بچی  کی والدہ سے نکاح کرلیاتو چوں کہ مذکورہ لڑکی اس کی منکوحہ بیوی کی بیٹی ہے اور اس کی منکوحہ بیوی نے ہی دودھ پلائی ہے، لیکن چوں کہ یہ دودھ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے ہے، لہذا  کسی دوسرے کے دودھ کی وجہ سے یہ لڑکی زوجِ ثانی پر حرام نہیں ہوگی ،جب تک زوجِ ثانی نے اس کی ماں سے وطی نہیں کی ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں