احسان کی تعریف، فضائل اور حصول کا طریقہ؟
مشہور حدیث مبارکہ جو حدیث جبریل سے بھی مشہور ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس حدیث میں احسان کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔
باقی احسان کے فضائل یہ ہیں کہ اس سے عبادت میں لگن اور خشوع وخضوع پیدا ہوتا ہے۔ نیز تعلق معلیٰ، اعمال (نماز کی مشق) اور اہل اللہ کی مجالس میں شرکت اور تعلق سے یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا مسدد قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا أبو حيان التيمي عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال:كان النبي صلى الله عليه و سلم بارزا يوما للناس فأتاه جبريل فقال ما الإيمان ؟ قال ( أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالعبث ) . قال ما الإسلام ؟ قال ( الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به وتقيم الصلاة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان ) . قال ما الإحسان ؟ قال ( أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك ) . قال متى الساعة ؟ قال ( ما المسؤول عنها بأعلم من السائل وسأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان في خمس لا يعلمهن إلا الله). ثم تلا النبي صلى الله عليه و سلم {إن الله عنده علم الساعة} الآية ثم أدبر فقال ( ردوه ) فلم يروا شيئا فقال (هذا جبريل جاء يعلم الناس دينهم) قال أبو عبد الله جعل ذلك كله من الإيمان".
(کتاب الإيمان، صحيح البخاري، باب سؤال جبريل النبي صلى الله عليه و سلم عن الإيمان والإسلام والإحسان وعلم الساعة، ج: ۱، صفحہ: ۲۷، رقم الحدیث: ۵۰، ط: دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت)
شرح صحيح مسلم للنووی میں ہے:
"(الإحسان أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك) هذا من جوامع الكلم التي أوتيها صلى الله عليه وسلم لأنا لو قدرنا أن أحدنا قام في عبادة وهو يعاين ربه سبحانه وتعالى لم يترك شيئا مما يقدر عليه من الخضوع والخشوع وحسن السمت واجتماعه بظاهره وباطنه على الاعتناء بتتميمها على أحسن وجوهها إلا أتى به فقال صلى الله عليه وسلم اعبد الله في جميع أحوالك كعبادتك في حال العيان فإن التتميم المذكور في حال العيان إنما كان لعلم العبد باطلاع الله سبحانه وتعالى عليه فلا يقدم العبد على تقصير في هذا الحال للاطلاع عليه وهذا المعنى موجود مع عدم رؤية العبد فينبغي أن يعمل بمقتضاه فمقصود الكلام الحث على الإخلاص في العبادة ومراقبة العبد ربه تبارك وتعالى في إتمام الخشوع والخضوع وغير ذلك".
(کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الإيمان و الإسلام و الإحسان، ج: ۱، صفحہ: ۱۵۷ و۱۵۸، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100347
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن