بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احناف کے نزدیک فرض نمازوں کے بعد جہرا لمبی دعا کرانے کا حکم


سوال

ہم لوگوں  کی جامع مسجد میں ایک مولوی صاحب بسلسلہ وعظ یوم جمعہ  تشریف لائے اور محترم موصوف نے وعظ فرمایا ،  اس کے بعد خطبہ دیا اور نماز جمعہ پڑھائی اور جمعہ کی دو گانہ فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد دعا فرمائی، دعا با آواز بلند اور کافی دیر تک فرمائی، کم و بیش نماز پڑھائی چھ منٹ میں تو دعا فرمائی چار منٹ میں یا اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا عند الاحناف بعد صلوٰۃ المکتوبہ دعا بالجہر مفصلاً کرانا درست طریقہ ہے؟ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

جواب

فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے،  اور یہ دعا سر اً (آہستہ)ہونی چاہیے، البتہ  کبھی کبھارتعليم كي غرض سے امام  جہراً(بلندآواز سے) بھی دعا کراسکتا ہے،لہذا صو رت مسؤلہ  میں  سلام کے بعد مختصر دعا کرکے سنتوں میں مشغول ہوجانا چاہیے،باقی کبھی کبھار کوئی مہمان عالم   یاخطیب  اورامام صاحب  دوچار منٹ   تعليم كی غرض سے  جب کہ دوسروں  کی نماز میں خلل نہ ہو، جہراً(بلندآواز سے) بھی دعا کراسکتے ہیں ۔

غنیۃ المستملی میں ہے:

"فإن کان بعدھا أي: بعد المکتوبة تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام، ویکرہ تأخیر السنة عن حال أداء الفریضة بأکثر من نحو ذلک القدر ……وقد یوفق بأن تحمل الکراھة علی کراھة التنزیہ ومراد الحلواني عدم الإساء ة ……وھو قریب من المکروہ کراھة التنزیه فتحصل منه أن الأولی أن لا یقرأ الأوراد قبل السنة، ولو فعل 

لا بأس به ولا تسقط السنة بذلک حتی إذا صلاھا بعد الأوراد تقع سنة موٴداة لا علی وجه السنة……فالحاصل أن المستحب في حق الکل وصل السنة بالمکتوبة من غیر تأخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یؤدي تأخیرہ إلی الکراھة لحدیث عائشة بخلاف المقتدي والمنفرد".

 (غنیة المستملي، ص 341 - 344، ط: عارف آفندی 1325ھ، ـــــــــــــ الدر المختار مع رد المحتار ،کتاب الصلاة، آخر باب صفة الصلاة، 1/ 530، ط: سعید)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"وما ذكرنا من الآثار دليل على أن إخفاء الدعاء أفضل من إظهاره؛ لأن الخفية هي السر".

(أحكام القرآن للجصاص،سورۃ الانعام، باب النهي عن مجالسة الظالمين، ج:3، ص:45، ط:دارالکتب العلمية)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"نماز کے بعد جہری دعا کا حکم:

فرض باجماعت کے بعد دعا آہستہ مانگےیا زور سے، اگر آہستہ کا حکم ہے تو کس قدر، اور زور سے مانگنے کا حکم ہے تو کس قدر، دونوں میں کون سا افضل ہے، حدیث میں نماز کے بعد کس قدر دعائیں مانگنا وارد ہے، لہذا افضل کیا ہے؟ مطلع فرمائیں۔

الجواب: سرّی دعا افضل ہے، نمازیوں کا حرج نہ ہوتا ہو تو کبھی کبھی ذرا آواز سے دعا کرلے تو جائز ہے، ہمیشہ  جہری دعا کی عادت بنانا مکروہ ہے، حدیثوں میں جس طرح دعا کے متعلق روایتیں ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی ایسے ہی یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم  نے رکوع میں " سبحان ربی العظیم"  اور سجدہ میں " سبحان ربی الاعلى" پڑھا، لیکن جس طرح رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کی روایتوں سے جہر ثابت نہیں ہوتاتو دعا کی روایتوں سے بھی جہر ثابت نہیں کیا جاسکتا"۔

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:10، ص:198، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں