بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

احناف کے نزد یک نماز جمعہ کے قیام کے لیے امام یا قاضی کی شرط اور موجودہ دور میں اس کا پایاجانا


سوال

نماز جمعہ کے قیام کے لئے امام یا قاضی کی جو شرط عند الاحناف ہے ،اس سے کیا مراد ہے؟موجودہ دور میں یہ شرط کس طرح پایا جاتا ہے؟

جواب

نماز جمعہ کے لیے ہمارے ہاں امام وقاضی کی شرط کامطلب یہ ہوتاہے کہ اسلامی ریاست میںریاستی عہدے اور سرکاری مناصب پر وہی لوگ فائز ہوسکتے ہیں جو علم وتدین میں اعلیٰ رتبہ رکھتے ہوں۔ جب تک اسلامی خلافتوں کی صورت میں حکومت وریاست ،دین و مذہب کے تابع تھی اس وقت تک یہی ہوتاتھا کہ حاکم وقت یا اس کے نمائندگان یعنی مقامی افسران ہی اپنے اپنے احاطہ کار میں دینی مناصب امامت و خطابتکے فرائض انجام دیا کرتے تھے اور یہ مناصب ان کی ذمہ داریوں کا حصہ شمار ہوتے تھے ۔ اب چونکہ ہمارے حکمرانوں اور افسران نے مکہ مدینہ کو چھوڑکر مغرب کو اپنا مقتدیٰ بنالیا ہے اور وہ اہل مغرب کے طرز پر مسلمانوں پر حکومت کرتے ہیں اس لیے انہیں دینی مناصب کا اہل قرار نہیں دیا جاتا اور مسلمان اپنے دینی مناصب کے لیے انہیں قبول نہیں کرتے۔ ان کے بجائے دین کے علماء کو اپنا مذھبی پیشوا قرار دیتے ہیں اور انہیں ہی اس کا حقیقی وارث اور اہل قرار دیتے ہیں، اس لیے علماء دین ہی ان مناصب کے حقدار اور اہل ہیں نہ کہ سرکاری افسران ۔ اس لیے موجودہ دور میں فقہاء کرام نے ان مناصب کے لیے حاکم وقت،اور سرکاری افسران کی شرط نہیں لگائی ،لیکن اب بھی اسلامی حکومت قائم ہوجائےاور حکام وقت ، عدلیہ کے جج، انتظامیہ کے افسران اور فوج کے جرنیل دین کے علماء بن جائیں تو اب بھی نماز جمعہ اور عید ین کی امامت وخطابت کے لیے وہی حکم ہو گا جو فقہاء کرام نے کتب فقہ و فتاویٰ میں درج فرمایا ہے ۔


فتوی نمبر : 143101200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں