کیا میں شیعہ بچوں کو پڑھا سکتی ہوں؟ اور کیا شیعہ کے اسکول میں نوکری کرنا جائز ہے یانہیں؟
شریعتِ مطہرہ میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور بلاضرورتِ شرعیہ اس کے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی ہے۔ نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور عورت کا نفقہ اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیاہے تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے، شادی سے پہلے اگر عورت کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے والد پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ کو شدید مجبوری نہیں تو اس صورت میں گھر سے ملازمت کی غرض سے نہیں نکلنا چاہیے، البتہ اگر شدید مجبوری ہے اور کوئی کمانے والا نہیں ، اور گھر میں بچیوں یا نابالغ بچوں کو پڑھانے کی کوئی صورت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، اس صورت میں بھی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے ادارے میں مسلمانوں کے بچوں کو پڑھایا جائے ۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو شیعہ حضرات کے اسکول میں ملازمت کرنا اور اُن کے بچوں کو پڑھانا جائز ہوگا، بشرطیکہ شرعی حدودکی رعایت رکھتے ہوئے ، باپردہ ہوکر کوئی جائز مضمون اُن کو پڑھایا جائے، اور ان کے ساتھ اختلاط (میل جول) کی وجہ سے آپ کے اپنے ایمان وعقائد کے خراب ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ اس کے برخلاف اگر پردہ کی رعایت نہ ہوسکے ، یا وہاں جاکر اپنے ایمان وعقائد کے بگڑنے کا خدشہ ہو، یا اس سلسلے میں کوئی ناجائز فعل (مثلاً بے پردگی یا نامحرموں کے ساتھ اختلاط وغیرہ) کا ارتکاب کرنا پڑے، یا کوئی ایسا مضمون پڑھانا پڑے جس سے اُن کے غلط عقائد کی ترویج ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں آپ کا شیعہ بچوں کو پڑھانا یا اُن کے اسکول میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
" وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ ۖ ."(الأحزاب :٣٣)
ترجمہ: "اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی بار جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا۔"
روح المعانی ميں ہے :
"والمراد علی جمع القراءات أمرهن رضي اللہ تعالی عنھن بملازمة البیوت، وهو أمر مطلوب من سائرالنساء، وأخرج الترمذي والبزار عن ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشیطان و أقرب ما تکون من رحمة ربّھا وهي في قعر بیتھا."
(ج:11،ص:523،ط: دارالإحياء التراث العربي)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال. وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها."
(كتاب النكاح، باب النظر، ج:5،ص:2054، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"ولأن النساء أمرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالھن علی الستر و الیہ أشار النبی صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال : کیف یفلح قوم تملکھم إمراۃ."
(باب الامامۃ، مطلب فی شروط الامامۃ الكبرى ،ج: 1 ،ص: 548،ط:سعید )
فتاوی عالمگیریہ میں ہے :
"واما الأناث فلیس للأب أن یؤاجرھن فی عمل أو خدمۃ و نفقۃ الأناث واجبۃ مطلقا علی الآباء مالم یتزوّجن اذا لم یکن لھن مال، کذا فی الخلاصۃ ."
(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات ،الفصل الرابع فی نفقۃ الأولاد الصغار ،ج: 1،ص: 563 و 562، ط: رشیدیہ)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100649
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن