اہل تشیع کے ہاں دعوت پہ جانا کیسا ہے؟
اگر اہل تشیع کا کھانا حلال ہو اور ان کے عقیدے کے مطابق کسی خاص مجلس یا دن کا نہ ہو تو عام احوال میں شیعہ کی دعوت کا کھانا فی نفسہ جائز ہے، اگر ان کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کے نتیجے میں عقیدہ بگڑنے کا اندیشہ ہو یا دعوت کسی مذہبی رسم کی مناسبت سے ہوتوانکی دعوت میں شرکت درست نہیں ہوگی، نیز ان سے زیادہ اختلاط سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَا تَرْكَنُوْآ اِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ﴾ [هود: 113]
الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:
"قال مالک بن دینار : أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء أن قل لقومک: لا یدخلوا مداخل أعدائي، ولا یلبسوا ملابس أعدائي، ولا یرکبوا مراکب أعدائي، ولا یطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي، کما هم أعدائي".
(ابن حجر مکی ہیثمی، 1/15، مقدمہ، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"و لا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط."
( کتاب الکراہیۃ الباب الرابع عشر جلد 5 / 345 / ط : دار لفکر )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101407
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن