بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل کتاب کے ذبائح اور اہل کتاب لڑکیوں سے شادی کرنے کا حکم


سوال

کیا آج بھی اہلِ کتاب کے ذبائح اور ان کی لڑکیوں سے شادی کرنا جائز ہے ؟سورۃ مائدہ کی آیت نمبر پانچ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی لڑکیوں سے شادی کرنا اور ان کے ذبائح درست ہیں ،براہِ مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اہلِ کتاب اگر اپنے نبی کو مانتے ہوں خواہ وه شرک ميں مبتلا هوں  اور ان پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہوں خواہ محرف ہی کیوں نہ ہوں تو  مسلمانوں کے لیے ان کا  ذبیحۃ اور ان کی لڑکیوں سے شادی کرنا جائز ہوگا،لیکن چوں کہ یہ نکاح بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے اس لیے بلا ضرورت نکاح کرنا مکروہ ہے،اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ان سے نکاح کرنے کو منع فرمایا تھا ،اور اگر وہ دہریہ عقائد کے حامل ہیں یعنی اللہ کے وجود ہی کے منکر ہیں ،اپنے نبی اور آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ہیں تو ان کا ذبیحہ اور ان کی لڑکیوں سے شادی کرنا ناجائز اور حرام ہوگا ۔

نیز اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ذبح کے وقت زبان سے صرف اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں۔

فتاو ی شامی میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات،ج:3،ص:45،ط:سعید)

 مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اہلِ کتاب کی لڑکی اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی ہے خواہ وہ محرف ہو یا حضرت  عیسیٰ کو نبی مانتی ہو خواہ وہ شرک کرے، یہی حال یہودی لڑکی کا ہے تو ان سے مسلمان کا نکاح جائز ہے، تاہم بہتر نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر یہودی یا نصرانی لڑکی دہریہ ہے،  اپنے نبی یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتی تو اس سے مسلمان کا نکاح ناجائز و حرام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: ولی حسن"

(6 رجب المرجب 1399ھ)

نیز سائل نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اسی کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں :

" اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب کہنے اور سمجھنے کے لئے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں  یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم (علیہما السلام) کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہل کتاب میں داخل ہیں۔ سو قرآن کریم کی بیشمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہل کتاب ہونے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعویدار ہوں، خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جا پڑے ہوں۔

 قرآن کریم نے جن کو اہل کتاب کا لقب دیا، انھیں کے بارے میں یہ بھی جا بجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں،یحرفون الکلم عن مواضع، اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، وقالت الیھود عزیر نِ ابن اللہ وقالت النصری المسیح ابن اللّٰہ، ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہل کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہل کتاب میں داخل ہیں، خواہ وہ کتنے ہی عقائد فاسدہ اور اعمال سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 

 امام جصاص نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کے عہد خلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے  ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود کی طرح کرتے ہیں مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ حضرت فاروق اعظم (رض) نے تحریر فرمایا کہ وہ اہل کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔

 صرف نام کے یہودی و نصرانی جو در حقیقت دہریے ہیں وہ اس میں داخل نہیں

 آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں، مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں، نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہل کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ 

 نصاریٰ کے بارے میں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ حلال نہیں اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ دین نصرانیت میں سے بجز شراب نوشی کے اور کسی چیز کے قائل نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد یہ ہے کہ"روي ابن الجوجوزي بسنده عن علي رضي الله تعالي عنه قال لا تاكلوا ذبائح نصاري بني تغلب فانهم لم يتمسكوا من النصرانيه الاشربهم الخمر وراه الشافعي بسند صحيح  عنه."

(تفسیر مظھری 34، جلد 3 مائدہ) 

ترجمه: "ابن جوزی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت علی (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نصاری بنی تغلب کے ذبائح کو نہ کھاؤ۔ کیونکہ انہوں نے مذہب نصرانیت میں سے شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں لیا۔ امام شافعی نے بھی سند صحیح کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔"

 حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بنی تغلب کے متعلق یہی معلومات تھیں کہ وہ بےدین ہیں ،نصرانی نہیں اگرچہ نصرانی کہلاتے ہیں، اس لئے ان کے ذبیحہ سے منع فرمایا، جمہور صحابہ وتابعین کی تحقیق یہ تھی کہ یہ بھی عام نصرانیوں کی طرح ہیں۔،بالکل دین کے منکر نہیں، اس لئے انہوں نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا۔

" وقال جمھور الامة ان ذبیحة کل نصرانی حلال سواء کان من بنی تغلب او غیرھم وکذلک الیھود."

(تفسیر قرطبی ،ص 78، جلد 6،ط:دار الکتب المصریہ)

اور جمہور امت کہتے ہیں کہ نصرانی کا ذیحہ حلال ہے۔ خواہ بنی تغلب میں سے ہو، یا ان کے سوا کسی دوسرے قبیلہ اور جماعت سے ہو، اسی طرح ہر یہودی کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ جن نصرانیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے۔ وہ اہل کتاب کے حکم میں نہیں۔"

(ج:3 ص:48،ط:مکتبہ المعارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں