بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل حدیث کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

 میرے گھر کے پاس اہل حدیث کی جامع مسجد ہے کیا میں وہاں نماز جمعہ ادا کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جو اہل حدیث تقلید کو شرک نہیں کہتا ہو اور ائمہ مجتہدین و سلف صالحیں کو سب و شتم نہیں کرتا اور اركان ، شرائط اور واجبات میں حنفیہ کے مذہب کی رعایت کر کے نماز پڑھتا ہے اس کے پیچھے نماز درست ہے، جو ارکان،شرائط اور واجبات میں  حنفیہ کے مذہب کی رعایت نہیں کرتا اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے ، جس کے متعلق رعایت و عدم رعایت کا علم نہیں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے مگر نماز درست ہوجائے گی جب تک امام کے متعلق کسی وصف مفسد صلاۃ کا علم نہ ہو، اگر علم ہوجائے مثلا امام کے بدن سے خون نکلا جو اس کو مذہب کے موافق ناقض وضوء نہیں ہے اور حنفی مذہب کے موافق ناقض وضوء ہے تو نماز  نہیں ہوئی، حنفی کو اپنی نماز کا اعادہ لازم ہے اور جو اہل حدیث تقلید کو شرک کہتا ہے اور ائمہ مجتہدین و سلف صالحین کو پر سب و شتم کرتا ہے اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائل کو  اہل حدیث کی مسجد کے امام کا حال معلوم ہے اور وہ  ائمہ مجتہدین و سلف صالحین کو سب و شتم  نہیں کرتا  ہے اور حنفی مذہب کی رعایت کرکے نماز پڑھاتا ہے تو پھر وہاں نماز پڑھ لی جائے ورنہ پھر کسی دوسری قریبی مسجد میں نماز ادا کی جائے۔

حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:

"و" الرابع عشر من شروط صحة الاقتداء "‌أن ‌لا ‌يعلم ‌المقتدي من حال إمامه" المخالف لمذهبه "مفسدا في زعم المأموم" يعني في مذهب المأموم "كخروج دم" سائل "أو قيء" يملأ الفم وتيقن أنه "لم يعد بعده وضوءه" حتى لو غاب بعدما شاهد منه ذلك بقدر ما يعيد الوضوء ولم بعلم حاله فالصحيح جواز الاقتداء مع الكراهة كما لو جهل حاله بالمرة وأما إذا علم منه أنه لا يحتاط في مواضع الخلاف لا يصح الاقتداء به سواء علم حاله في خصوص ما يقتدى به فيه أو لا وإن علم أنه يحتاط في مواضع الخلاف يصح الاقتداء به على الأصح ويكره كما في المجتبى وقال الديري في شرحه لا يكره إذا علم الاحتياط في مذهب الحنفي.

قوله "الكراهة" ظاهر إطلاقه الكراهة هنا وفيما بعد أنها كراهة تحريم. قوله"فلا يصح الإقتداء" هذا محمول على ما إذا علم أنه لا يحتاط في الأركان والشروط وأما إذا علم أنه يحتاط فيهما ولا يحتاط في الواجبات كما إذا كان يترك السورة أو يزيد في التشهد الأول شيئا فإن الإقتداء صحيح مع كراهة التحريم وهل الأفضل الإقتداء أو الإنفراد الظاهر الثاني وأما إذا كان يراعي في الأركان والشروط والواجبات ولا يراعي في السنن بأن كان ينقص التسبيحات في الركوع والسجود أو يجلس للإستراحة فالإقتداء صحيح مع كراهة التنزيه والإقتداء أفضل لأنه قيل بوجوبه أو افتراضه على الكفاية فلا يتركه لذلك ويعلم الحكم فيما إذا كان يراعي في الجميع إلا في المستحبات بالأولى فإن الإقتداء به صحيح وهو أفضل وعلى كل حال الإقتداء بالموافق عند التعارض أفضل وراجع تحفة الأخيار."

(کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ص :  ۲۹۴،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں