بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامک اسکول میں بچیوں کو مرد اساتذہ سے تعلیم حاصل کروانا


سوال

ایک اسلامک اسکول میں لڑکیوں کو مرد استاد پڑھاتے ہیں ،لڑکیاں اسکارف میں ہوتی ہیں اور چاہیں تو نقاب بھی کرسکتی ہیں، اس اسکول میں قرآن کی مکمل تفسیر انگریزی میں پڑھائی جاتی ہے اور انگریزی اور عربی میں بچیوں کو ماہر بنا دیا جاتا ہے،یہ بچیوں کے والد ین کی خواہش ہےکہ وہ انگریزی اور عربی زبان سیکھیں اور پھر عالمات بن کردعوت کا کام ہر طبقے میں کرسکیں، اب کیا اس مقصد کے لیے  اسلامک اسکول میں بچیوں کو بھیجنادرست ہے یا نہیں؟

جواب

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح اٹھان اور صالح نشوونما میں ان کی ماؤں کا اہم رول ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے؛ اس لیے شروع ہی سے اسلام نے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں کھول  رکھی ہیں ،ان کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نہ صرف آزادی دی ہے؛ بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے،بالکل اسی طرح اس دینِ حنیف نے خواتین کو بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق بہ تمام وکمال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے ہیں، شرعی حدود میں رہتے ہوئےخواتین کوتعلیم دلانا شرعاً  جائز ہے، اگر گھر کی چار دیواری میں ہی شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئےاس کی کوئی صورت   ممکن ہوسکے تو  سب سے بہتر ہے، البتہ اگر گھر میں انتظام  نہ ہو سکے اور گھرسے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے  تو اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی بہرحال لازم ہے،  جہاں یہ شرائط پائی جائیں گی وہاں لڑکیوں کو اس طرح  تعلیم دلانا جائز ہوگا اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں:

1۔ خواتین کی تعلیم گاہیں صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں،مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا  ہرگز نہ ہو، نیز ان کا جائے وقوع فتنہ، فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔

2۔ ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ۔
3۔ نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابلِ اعتماد مرد اساتذہ کو مقرر کیا جائے جو  پسِ پردہ خواتین کو تعلیم دیں، کسی مرحلے میں بلاحجاب اُن سے آمنا سامنا نہ ہو، نہ ہی براہِ راست تعلق ہو۔
4۔ اگر  تعلیم گاہ شرعی مسافت پر ہو تو وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو، اور  ہاسٹل میں رہائش اختیار نہ کی جائے۔

5۔پڑھانے والی معلمات یامرد اساتذہ صحیح العقیدہ ہوں کہ اُن سے پڑھنےمیں  عقائد اور دینی اعمال واخلاق  خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں مندرجہ بالاشرائط  کی رعایت نہیں پائی جاتی؛ لہٰذامذکورہ  اسلامک اسکول میں  لڑکیوں کوتعلیم کے لیے بھیجناجائز نہیں ہے، ہاں اگر مکمل پردہ کا انتظام ہو یعنی طالبات اور مرد استاذ کے درمیان پردہ ہو، ایک دوسرے کی شکل و صورت نظر نہ آئیں اور مائیک کے ذریعہ تعلیم ہو تو پھر جائز ہے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولهذا قال - صلى الله عليه وسلم - «التسبيح للرجال والتصفيق للنساء» فلا يجوز أن يسمعها الرجل ومشى عليه المصنف في الكافي فقال ولا تلبي جهرا؛ لأن صوتها عورة ومشى عليه صاحب المحيط في باب الأذان وفي فتح القدير وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقرآن في الصلاة فسدت كان متجها."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 285/1، ط: دارالكتاب الإسلامي)

تفسیرِ ابن کثیر میں ہے:

"فقوله تعالى: وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن أي عما حرم الله عليهن من النظر إلى غير أزواجهن، ولهذا ذهب كثير من العلماء إلى أنه لا يجوز للمرأة أن تنظر إلى الرجال الأجانب بشهوة ولا بغير شهوة أصلا.

واحتج كثير منهم بما رواه أبو داود والترمذي من حديث الزهري عن نبهان مولى أم سلمة أنه حدث أن أم سلمة حدثته أنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونة قالت فبينما نحن عنده أقبل ابن أم مكتوم فدخل عليه وذلك بعد ما أمرنا بالحجاب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «احتجبا منه» فقلت يا رسول الله أليس هو أعمى لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم «أو عميا وان أنتما؟ ألستما تبصرانه»،  ثم قال الترمذي هذا حديث حسن صحيح. وذهب آخرون من العلماء إلى جواز نظرهن إلى الأجانب بغير شهوة كما ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل ينظر إلى الحبشة وهم يلعبون بحرابهم يوم العيد في المسجد وعائشة أم المؤمنين تنظر إليهم من ورائه وهو يسترها منهم حتى ملت ورجعت  .وقوله ويحفظن فروجهن ، قال سعيد بن جبير: عن الفواحش. وقال قتادة وسفيان: عما لا يحل لهن. وقال مقاتل: عن الزنا."

(سورة المؤمنون، الآية: 31، 41/6، ط: دارالكتب العلمية) 

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن ابن سيرين) : وهو محمد بن سيرين، مولى أنس بن مالك، وهو من مشاهير التابعين، وهو غير منصرف للعلمية، والمزيدتين على مذهب أبي علي في اعتبار مجرد الزائدتين (قال: ‌إن ‌هذا ‌العلم ‌دين) : اللام للعهد، وهو ما جاء به النبي صلى الله عليه وسلم لتعليم الخلق من الكتاب والسنة وهما أصول الدين (فانظروا عمن تأخذون دينكم) : المراد الأخذ من العدول والثقات."

(كتاب العلم، الفصل الثالث، 336/1، ط: دارالفکر)

مسندِ دارمی میں ہے:

"‌عن ‌أسماء ‌بن ‌عبيد، ‌قال: ‌دخل ‌رجلان ‌من ‌أصحاب ‌الأهواء على ابن سيرين فقالا: يا أبا بكر نحدثك بحديث؟ قال: «لا»، قالا: فنقرأ عليك آية من كتاب الله؟ قال: «لا، لتقومان عني أو لأقومن»، قال: فخرجا، فقال: بعض القوم: يا أبا بكر، وما كان عليك أن يقرآ عليك آية من كتاب الله تعالى؟ قال: «إني خشيت أن يقرآ علي آية فيحرفانها، فيقر ذلك في قلبي»

(باب اجتناب أهل الأهواء والبدع والخصومة، 389/1، ط:دارالمغني للنشر والتوزيع)

فتاوٰی رحیمیہ میں ہے:

"عورتوں کواور لڑکیوں کی دینی تعلیم کابہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر بستی میں مقامی طور پر اُن کی تعلیم کاانتظام کیاجائے، کہ عورتیں اورلڑکیاں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ آمدورفت کریں اور ایسی قابلِ اعتماد رفاقت اختیار کریں کہ وہ بدنامی سے بالکل محفوظ رہیں اور اُن کی عصمت وپاکدامنی، عزت وآبرو پر کوئی داغ دھبہ نہ آئے اور شام تک اپنے گھر میں واپس پہنچ جائیں، اُن کے بڑے اور اولیاء اُن کی تعلیم اور آمدورفت کی پوری نگرانی کریں، عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا یہ طریقہ ان شاء اللہ فتنوں سے محفوظ رہے گا، صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو باتیں لکھی ہیں اگر وہ بالکل صحیح ہوں اور لڑکیاں پردہ کے مکمل انتظام واہتمام کے ساتھ آمدورفت کرتی ہوں، معلمات بھی صحیح العقیدہ اور قابلِ اعتماد ہوں تو بہت ہی قابلِ مدح وستائش اور لائقِ صد مباک باد ہے۔۔۔۔۔الخ۔"

(کتاب العلم والعلماء، تعلیمِ نسواں کی اہمیت، 163/3، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں