بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل تشیع سے دوستی وغیرہ کا حکم


سوال

 اہل تشیع کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کے ساتھ کھانا کھانا، ان کی تعریف کرنا، ان سے دوستی کرنا درست ہے؟

جواب

اہل تشیع کے حکم میں تفصیل ہے؛جن اہل تشیع نے  کلمۂ اسلام، شعائرِ اسلام، ارکانِ اسلام اور اساسِ اسلام تک اپنی دینی شناخت از خود عام مسلمانوں سے جدا کر رکھی ہے یا قرآنِ کریم کو عام مسلمانوں کے برعکس غیر محفوظ اور محرف کتاب کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے بدأ  کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وحی الٰہی میں بایں معنی غلطی کے صدور کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بجائے غلطی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی پہنچادی، نیز حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صحابیت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کے قرآنی حکم کے برعکس عقیدہ اپنا رکھا ہے، نیز جو لوگ شیعت کے لبادے میں الوہیتِ علی رضی اللہ عنہ کا شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں اور مخصوص عقیدۂ امامت کی آڑ میں نبوت کے ثبوت اور ختمِ نبوت کے انکار کی فکر کے حامل ہیں، ان کا دینِ اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے اہلِ تشییع  کے ساتھ کھانا کھانا  اوردوستانہ تعلق رکھنا اور ان کی تعریف کرنا جائز نہیں ہے،البتہ دین اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے تعلق رکھنا جائز ہے۔

قرآن پاک میں ہے :

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلۡكَٰفِرِينَ أَوۡلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجۡعَلُواْ لِلَّهِ عَلَيۡكُمۡ سُلۡطَٰنٗا مُّبِينًا ."(سورۃ النساء ، آیت: 144)

ترجمہ :" اے ایمان والو تم مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ  کیا تم یوں چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالی کی حجّت  صریح قائم کرلو۔" (از بیان القرآن )

فتاوی شامی میں ہے :

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر ‌صحبة ‌الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة الخ."

(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات ج: 3 ص: 46 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشة رضی اللہ عنها، أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوهیة في علي، أو أن جبرئیل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن".

(کتاب الجهاد ، باب المرتد  ج: 4 ص: 237 ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله، فهو كافر، وإن كان يفضل عليا كرم الله تعالى وجهه على أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - لا يكون كافرا إلا أنه مبتدع والمعتزلي مبتدع إلا إذا قال باستحالة الرؤية، فحينئذ هو كافر كذا في الخلاصة.
ولو قذف عائشة - رضي الله تعالى عنها - بالزنا كفر بالله، ولو قذف سائر نسوة النبي - صلى الله عليه وسلم - لا يكفر ويستحق اللعنة، ولو قال عمر وعثمان وعلي - رضي الله عنهم - لم يكونوا أصحابا لا يكفر ويستحق اللعنة كذا في خزانة الفقه۔۔۔۔۔۔۔ويجب إكفار الروافض في قولهم برجعة الأموات إلى الدنيا، وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإله إلى الأئمة وبقولهم في خروج إمام باطن وبتعطيلهم الأمر والنهي إلى أن يخرج الإمام الباطن وبقولهم إن جبريل - عليه السلام - غلط في الوحي إلى محمد - صلى الله عليه وسلم - دون علي بن أبي طالب - رضي الله عنه -، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحكامهم أحكام المرتدين كذا في الظهيرية".

(کتاب السیر ، الباب التاسع في أحكام المرتدين ج: 2 ص: 264 ط: دار الفکر)

وفیہ ایضا:

"و لا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط."

( کتاب الکراهیة الباب الرابع عشر ج: 5 ص: 347 ط: دار لفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں