بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل کتاب سے شادی کرنے کاحکم


سوال

آج کل اہل کتاب سے نکاح کر نے کا کیا حکم ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ وغیرہ ہو تو اس سے  مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔

(2)  وہ اصلا    یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے،  آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائےآج کل کی  لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اس لیے جواز کے باوجود اہلِ کتاب لڑکیوں سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے،حضرت حذیفہ بن الیمان  رضی اللہ عنہ نے مدائن میں ایک یہودی عورت سے نکاح کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کومعلوم ہوا تو آپ نے ان کو طلاق دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہودی   عورت سے نکاح حرام ہے  لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر  عفت وپاکدامنی نہیں ہوتی اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے  گھرانے میں  بھی  اس راہ سے فحش و بد کاری داخل نہ ہو جائے ۔ اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

احکام القرآن  للجصاص میں ہے :

"عن شقيق بن سلمة قال تزوج حذيفة بيهودية فكتب إليه عمر أن خل سبيلها فكتب إليه حذيفة أحرام هي فكتب إليه عمر لا ولكني أخاف أن تواقعوا المومسات منهن قال أبو عبيد يعني العواهر فهذا يدل على أن معنى الإحصان عنده ههنا كان على العفة".

(باب تزوج الکتابیات 408/2،دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ. قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. ".

   (کتاب النکاح ،45/3،سعید) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502102282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں