بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف لوگوں سے تفاسیر پڑھنا


سوال

اشاعت التوحید والسنہ کےمتعلق کچھ راہ نمائی فرمادیں کہ کیا ان حضرات سے تفسیر پڑھنا صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  حیات الانبیاء سے متعلق جمہور اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں زندہ ہیں، اور ان کی حیات دنیوی حیات کے مماثل، بلکہ اس سے بھی قوی ہے، اور دیگر تمام لوگوں کی حیات سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کی حیات ممتاز ،اعلیٰ اور اور فع ہے، اور  وہ سب اللہ رب العزت کی ذات وصفات کے مشاہدہ میں مشغول ہیں ،  اور مختلف قسم کی عبادات میں مشغول ہیں ، یہ ضروری نہیں ہے کہ سب نمازوں میں مشغول ہوں گے،  بلکہ ممکن ہے کہ کسی کو یہ مشاہدہ بصورتِ نماز ہوتا ہو اور کسی کو بصورتِ تلاوت ہوتا ہو اور کسی کو اور طریقہ سے، لہذا سب  مشاہدہ باری تعالیٰ میں ہیں ۔ (شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام للسبکی، ص 206)  البتہ عالمِ برزخ میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کی عبادات مکلف ہونے کے اعتبار سے نہیں ہیں، بلکہ  بلا مکلف ہونے کے صرف تلذد اور لذت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔(ایضاً)   جو شخص حیات الانبیاء کا منکر ہو،  وہ اہلِ سنت سے خارج ہے۔

 فرقہ اشاعتِ توحید  سے وابستہ حضرات،  اہلِ سنت والجماعت کے مذکورہ اجماعی عقیدہ  کے منکر ہیں،   اس لیے ان حضرات  سے تفاسیر پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔

المہند علی المفند میں ہے:

"عندنا و عند مشائخنا حضرة الرسالة صلي الله عليه وسلم حي في قبره الشريف و حيوٰته صلي الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف، و هي مخصوصة به صلي الله عليه وسلم و بجميع الأنبياء صلوات الله عليهم، لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين، بل لجميع الناس، كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالة: "إنباء الأذكياء بحيوٰة الأنبياء" حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي: حيوٰة الأنبياء و الشهداء في القبر كحيوٰتهم في الدنيا، و يشهد له صلوٰة موسی عليه السلام في قبره؛ فإن الصلوٰة تستدعي جسداً حياً... الخ

(ص: ادارة اسلاميات)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره ... إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع ...

وفی الرد: وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم.

(قوله: أي صاحب بدعة) أي محرمة، وإلا فقد تكون واجبة، كنصب الأدلة للرد على أهل الفرق الضالة، وتعلم النحو المفهم للكتاب والسنة ومندوبة كإحداث نحو رباط ومدرسة وكل إحسان لم يكن في الصدر الأول، ومكروهة كزخرفة المساجد. ومباحة كالتوسع بلذيذ المآكل والمشارب والثياب كما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي، وبمثله في الطريقة المحمدية للبركليأي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي، لكن في وتر البحر: إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره."

 (1/ 559، کتاب الصلوٰۃ ، باب الامامۃ،ط: سعید)

''حلبی کبیر '' میں ہے:

"و لو قدّموا فاسقاً  يأثمون بناء علي أن كراهة تقديمه كراهة تحريم؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه ...''الخ

( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں