جب کسی کے یہاں انتقال ہو جاتا ہے تو آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا بنایا جاتاہے ،کیا وہ کھانا پکانا اور وہ کھانا کھانا شرعاًجائز ہے یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں کسی کے انتقال کی صورت میں صرف اہل میت کے وہ رشتہ دار جو دور سے آۓ ہوں یا اہلِ میت کی تسلی کے لیے ان کا قیام ضروری ہو،وہ میت کے گھر کھانا کھالیں تو کوئی مضائقہ نہیں،باقی تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنے گھروں کوواپس جانا چاہیے،میت کے گھر نہ قیام کریں اور نہ کھانا کھائیں،دعوت خوشی کے موقع پر مسنون ہےغم کے موقع پر نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، و هي بدعة مستقبحة ... و قال كثير من متأخري أئمتنا: يكره الاجتماع عند صاحب البيت ويكره له الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي، بل إذا فرغ ورجع الناس من الدفن فليتفرقوا ويشتغل الناس بأمورهم وصاحب البيت بأمره."
(كتاب الصلاة،باب الجنائز، مطلب في كراهة الضيافة من اهل الميت، 240/241/2،ط:سعید)
صحیح البخاری میں ہے:
"عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم :أنها كانت إذا مات الميت من أهلها فاجتمع لذلك النساء، ثم تفرقن إلا أهلها وخاصتها، أمرت ببرمة من تلبينة فطبخت، ثم صنع ثريد فصبت التلبينة عليها، ثم قالت: كلن منها؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: التلبينة مجمة لفؤاد المريض، تذهب ببعض الحزن."
(كتاب الاطعمة، باب التلبينة، 75/7، ط:المطبعة الكبری الاميرية ببولاق مصر)
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ جب ان کاکوئی رشتہ دار مرجاتاتو عورتیں ہوتیں،پھر سب اپنے گھر چلی جاتیں،مگر خاص خاص اور قریب کی عورتیں رہ جاتیں اور تلبینہ بنانے کا حکم دیتی،وہ پکایا جاتا،پھر ثرید بناکر تلبینہ اس پر ڈال دیا جاتا،پھرفرماتی کہ اسے کھاؤ،اس لیے کہ میں نے حضور اکرمﷺکو فرماتے ہوئے سناہےکہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہےاور غم کو دور کرتا ہے۔"
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101767
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن