بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل مدارس کو زکوۃ دینے کا حکم اور تملیک کا طریقہ


سوال

1۔اہل ِ مدارس کو زکوۃ دینا کیسے ہے ؟ 2۔اہل ِ مدارس کے لیے تملیک کا درست طریقہ کیا ہے ؟

جواب

1۔دینی مدارس دین ِ اسلام کے قلعے ہیں ، قرآن و سنت کی حفاظت کی خاطر دن رات کو شاں ہیں ، امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ و سلام  کی دینی راہ نمائی میں مصروفِ  عمل ہیں ، اسلامی سرحدات  کی چوکیداری کا فریضہ احسن انداز میں سر انجام دے رہے ہیں ،  اسلام دشمن کفار و مستشرقین  اور کفریہ طاقتوں کے زیر ِ اثر  رہنے والے روشن خیال    ضمیر فروش لوگوں  کی سازشوں کے سامنے  سد ِ سکندری  بن کر قائم  ہیں ، کفار اور کفریہ تہذیب و تمدن کے دلدادہ   لوگوں کے تمام تر باطل نظریات اور اسلام و مسلمین کے خلاف بنائے ہوئے  ناپاک عزائم اور زہر آلود پرو پیگنڈوں / کوششوں  کو ناکام بنانے میں کامیاب ہیں  ۔

اور  مدارس کی تمام اخراجات  و ضروریات ،  اللہ تعالی ٰ کے فضل و کرم اور مخیر حضرات کے تعاون  زکوۃ ، صدقات اور خیرات سے  پورے ہورہے ہیں  اور اس وقت مدارس ِدینیہ  زکوۃ کی صحیح اور اہم ترین مصرف ہیں؛ لہذا اہل ِ مدارس کو زکوۃ دینا جائز ہی  نہیں ، بلکہ بہتر ہے ، نیز مدارس  کو مالی امداد کے  ذریعے مضبوط  کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے اور  مدارس کے مستحق طلبہ کو  زکات دینے میں  شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے۔

2۔ زکوۃ کی ادائیگی کیلئے  چونکہ یہ شرط ہے کہ وہ مستحق ِزکوۃ کو مالک بنا کر دی جائے ،اس کے بغیر زکوۃ ادا  نہیں ہوتی   ؛  اس لیے   جو لوگ اہل ِمدارس کو زکوۃ  کی رقوم دیتے  ہیں  تو مدرسہ کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ اولاً زکوۃ کی رقوم مستحق ِزکوۃ  طلباء کو مالک بناکر دے دیں ،  پھر  طلباء  سے قیام وطعام اور تعلیم وغیرہ کی مد میں بطور ِفیس واپس لے لیں  اور اس سے مدرسہ کی ضروریات  واخرجات پوری کریں ۔

«الفتاوى الهندية»میں ہے :

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي.(ومنها المسكين) وهو من لا شيء له ۔"

(کتاب الزکوۃ ، الباب السابع في المصارف : 1 / 187 ، ط : المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

حاشية ابن عابدين میں ہے :

"قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل كما ورد «حجة أفضل من عشر غزوات» وورد عكسه فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل، وكذا بناء الرباط إن كان محتاجا إليه كان أفضل من الصدقة وحج النفل وإذا كان الفقير مضطرا أو من أهل الصلاح أو من آل بيت النبي - صلى الله عليه وسلم - فقد يكون إكرامه أفضل من حجات وعمر وبناء ربط. كما حكى في المسامرات عن رجل أراد الحج فحمل ألف دينار يتأهب بها فجاءته امرأة في الطريق وقالت له إني من آل بيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وبي ضرورة فأفرغ لها ما معه، فلما رجع حجاج بلده صار كلما لقي رجلا منهم يقول له تقبل الله منك، فتعجب من قولهم، فرأى النبي - صلى الله عليه وسلم - في نومه وقال له: تعجبت من قولهم تقبل الله منك؟ قال نعم يا رسول الله؛ قال: إن الله خلق ملكا على صورتك حج عنك؛ وهو يحج عنك إلى يوم القيامة بإكرامك لامرأة مضطرة من آل بيتي؛ فانظر إلى هذا الإكرام الذي ناله لم ينله بحجات ولا ببناء ربط ۔"

(كتاب الزكاة : 2 / 621 ، ط : سعید)

الدر المختار  میں ہے:

(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)

(كتاب الزكاة : 2 / 256 ، ط : سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں