بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل کراچی کا قبلہ کس جانب ہے؟


سوال

1) ہمارے شہر کراچی کا سمت قبلہ کیا ہے؟

2) شہر کی بیشتر اور مشہور و قدیم مساجد کا رخ بظاہر بجانب مغرب ہے۔لیکن بعض مساجد ایسی بھی ہیں جن کا رخ بجانب جنوب ہے۔ ان میں سے کون سا رخ صحیح ہے؟

3) مذکورہ بالا دونوں رخوں میں سے جو رخ صحیح نہ ہو اس پر جو نمازیں پڑھی گئی ہوں ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ نیز آئندہ ان مساجد کا رخ اپنی حالت پر برقرار رکھا جا ئے یا انہیں صحیح سمت کی طرف متوجہ کیا جائے؟براہ کرم قرآن و سنت و فقہ اسلامی کی روشنی میں تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

1) شہر کراچی  کا سمت قبلہ بجانب مغرب ہے۔ البتہ چونکہ مکہ مکرمہ  عرض البلد کے اعتبار سے شہر کراچی سے کچھ جنوب کی جانب ہے، لہٰذا شہر کراچی کیلئے سمت قبلہ بالکل عین سمت مغرب نہیں، بلکہ اس سے دو درجہ جنوب کی جانب مائل ہے۔لہٰذا کراچی میں موجود شخص عین سمت شمال سے مغرب کی جانب 92.4 درجہ گھوم جائے تو اس کا رخ قبلہ کی جانب ہوجائے گا۔ (البتہ یہ بات واضح رہے کہ مذکورہ قبلہ کا زاویہ شہر کے مرکز کے اعتبار سے درج کیا گیا ہے، لہٰذا کراچی شہر کےوسیع پھیلاؤ کی وجہ سے مرکز شہر  سے دور علاقوں مثلاً: ملیر ،گڈاپ، اورنگی ٹاؤن، قائدآباد، ہاکس بے، منوڑا وغیرہ میں اس مذکورہ زاویہ سے آدھے درجے یا اس سے کم و بیش کا فرق ہوسکتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ مرکز سے دور علاقے والے اپنے عرض البلد و طول البلد کے حساب سے سمت قبلہ  کا زاویہ معلوم کرکے اس کے مطابق قبلہ درست کریں۔)

2)3) کراچی میں سمت قبلہ کا صحیح رخ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔ اگر کسی مسجد کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ مسجد واقعۃ مغرب کے بجائے   جنوب کی جانب   منحرف ہےتو ایسی مسجد کے قبلہ کی تصحیح کرلینی  چاہیے۔ البتہ جو نمازیں اس سے پہلے ایسی مسجد  میں ادا ہوگئیں، ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔

نیز کسی مسجد کے متعلق  جب تک یقینی علم نہ ہوجائے کہ اس کا قبلہ درست نہیں، اس وقت تک  محض اندازے کی بناء پراس بارے میں شکوک و شبہات پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ جبکہ اہل کراچی کا قبلہ بالکل عین مغرب کی طرف ہے یہ بھی نہیں بلکہ دو درجہ جنوب کی طرف مائل ہے۔ جب کہ فقہاء نے(جو نمازیں سمت قبلہ سے کچھ انحراف کے ساتھ پڑھ لی گئیں، ان میں ) 45 درجہ تک انحراف کو معفو عنہ قرار دیا ہے۔

غرض کہ نئی تعمیر میں جہاں تک ممکن ہو سمتِ  قبلہ درست کر لیا جائے اور جب تک دوبارہ تعمیر نہ ہو صحیح سمت قبلہ کے مطابق صف  کھڑی کی جائے۔

وفي القرآن المجيد:

"{فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَه}." [البقرة: 144]

وفي العناية شرح الهداية :

"(ويستقبل القبلة) لقوله تعالى {فولوا وجوهكم شطره} [البقرة: 144] ثم من كان بمكة ففرضه إصابة عينها، ومن كان غائباالعناية ففرضه إصابة جهتها هو الصحيح لأن التكليف بحسب الوسع."

(‌‌كتاب الصلاة،باب شروط الصلاة التي تتقدمها،1/ 269،ط: دار الفكر)

 حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اس مسئلہ کے متعلق مذہبِ مختار حنفیہ کا یہ ہے: کہ جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لئے عینِ کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہتِ کعبہ کا استقبال فرض ہے، عینِ کعبہ کا نہیں ۔۔۔ پھر جہتِ قبلہ کے معنی یہ ہے کہ ایک خط جو کعبہ پر گزرتا ہو جنوب و شمال پر منتہی ہوجاوے اور نمازی کے وسط جبہہ سے ایک خط ِ مستقیم نکل کر اس سے پہلے خط سے اس طرح  تقاطع کرے  کہ اس موقع  ِ تقاطع پر دو  زوایہ  قائمہ  پیدا ہوجاویں، وہ قبلہ مستقیم ہے اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ وسطِ جبہہ سے نکلنے والا خط  تقاطع کرکے  زوایہ قائمہ پیدا نہ کرے   بلکہ حادہ یا منفرجہ پیدا کرے ، لیکن وسطِ جبہہ کو چھوڑ کر پیشانی  کے اطراف سے نکلنے والا خط زوایہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف قلیل ہے، اس سے نماز صحیح ہوجاوے گی۔ اور اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی  ایسا خط نہ نکل سکے ، جو خط ِ مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو  وہ انحراف ِکثیر ہے، اس سے نماز  نہیں ہوگی۔ اور علمائے ہیئت وریاضی نے انحراف ِ قلیل وکثیر کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پنتالیس درجہ تک انحراف  ہو تو قلیل ہے، اس سے زائد ہو تو کثیر، مفسدِ صلاةہے"۔

(جواہر الفقہ: کتاب الصلاة، سمت ِ قبلہ(2/356)،ط۔ مکتبہ دار العلوم کراچی، طبع جدید:1341هـ = 2010م)

فتاوی شامی میں ہے:

"فاعلم: أولا أن السطح في اصطلاح علماء الهندسة ما له طول وعرض لا عمق، والزاوية القائمة هي إحدى الزاويتين المتساويتين الحادثتين عن جنبي خط مستقيم قام على خط مستقيم هكذا قائمة قائمة، وكلتاهما قائمتان، ويسمى الخط القائم على الآخر عمودًا، فإن لم تتساويا فما كانت أصغر من القائمة تسمى زاوية حادّة، وما كانت أكبر تسمى زاوية منفرجة هكذا حادة منفرجة. ثم اعلم: أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقًا أو تقريبًا، ومعنى التحقيق: أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارّا على الكعبة أو هوائها.ومعنى التقريب: أن يكون منحرفًا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتًا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينًا بذراع، وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدًا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اهـ ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المارّ بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافًا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ كلام الدرر، وقوله في الدرر: "على استقامة" متعلق بقوله يصل لأنه لو وصل إليه معوجًا لم تحصل قائمتان بل تكون إحداهما حادة، والأخرى منفرجة كما بينا."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مبحث استقبال القبلة (1/428)،ط.سعيد، كراتشي)

محدث العصر حضرت  مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"التاسعة: أنه يجوز تحمل الانحراف اليسير في المحاريب بأن لاتتبدل الجهة بالكلية وتبقى مسامتة جهة الكعبة".

(بغية الأريب في مسائل القبلة والمحاريب:الفصل الرابع في أنه هل يجب تعيين القبلة بالأدلة.. (ص: 68)،ط. مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي، الطبعة: 1437هـ = 20016م

وفيہأيضًا:

"فالمحقق فيه عندنا على ما أدى إليه نظري القاصر: أن الانحراف اليسير في التيامن والتياسر مما لايمنع صحة الاقتداء".

(الفصل الخامس في: أنه يجوز للغائب عن الكعبة أن يصلي منحرفًا عن الجهة المتعينة(ص: 91))

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں