بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں تقسیم اور تقسیمِ میراث


سوال

 چند دن قبل میری والدہ کا رضاۓ الہی سے انتقال ہو گیا تھا، ہم کل 3 بھائی ہیں ، میری والدہ کی وراثت اور وصیت کی تمام چیزیں میرے پاس ہیں۔ میں آپ سے وراثت کے سلسلے میں چند سوال کرنا چاہتا ہوں۔ الحمدللہ میری والدہ بہت نیک خاتون تھیں  اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے آمین۔

1۔  میری والدہ نے کچھ عرصہ قبل ہم تینوں بھائیوں میں اپنا کچھ سونا تقسیم کیا تھا ، مجھے اور مجھ سے بڑے بھائی کو 13 ، 13تولے اور سب سے بڑے بھائی کو  8 تولے دیا، تقسیم کے کچھ عرصے بعد میری والدہ کو اس مسئلے کا علم ہوا کہ ہبہ برابر کرنا ہوتا ہے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ کچھ سونے کی چیزیں جس کا وزن  5 تولہ ہے ،سب سے بڑے بھائی کو دے دوں گی ، لیکن وہ یہ چیزیں سب سے بڑے بھائی کے حوالے کرتیں ، اس سے پہلے اللہ رب العزت نے ان کو اپنے پاس بلا لیا، اب آپ مجھے بتائیے کہ اس 5 تولے کو سب سے بڑے بھائی کو دیں یا وراثت میں رکھیں ، ہم وہ عمل کرنا چاہتے ہیں جو ہماری والدہ کو آخرت میں کامیابی دلاۓ۔

2۔  چند سال قبل میری والدہ نے مجھے 4000 ہزار ڈالر دیئے اور کہا رکھ لو ، کام آئیں گے ، میں نے بہت کہا مجھے نہیں چاہئیں ، لیکن وہ نہیں مانی ، کچھ دن بعد ہمارے علاقے میں ایک مسجد کی تعمیر و توسیع ہو رہی تھی ، میں نے اس میں سے کچھ رقم اپنی والدہ کی طرف سے مسجد کی تعمیر و توسیع کے لیے جمع کرا دی تھی اور کچھ رقم بچ گئی ، کافی وقت گزر گیا ہے ، اس لیےصحیح سے یاد نہیں کہ کتنی رقم بچی تھی تو کیا وہ رقم بھی وراثت میں شامل کی جائے گی؟ خواہش ہے کہ اس معاملے میں بھی وہ عمل کیا جائے جس سے والدہ کے اوپر کوئی بوجھ نہ ہو اور والدہ کو آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔

3۔ والدہ کے زیرِِ استعمال بہت ساری چیزیں تھیں ، اس میں ان کا بستر، تکیہ، کپڑے، دوائیں، موبائل، شیمپو، صابن، نماز کی کرسی ٹیبل، جانمازیں، اسکارف، بستر کی چادریں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں شامل ہیں، ان چیزوں کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

4۔ میری والدہ کے نام پر ایک آفس ہے ، جو میرے زیرِ استعمال ہے ، میں اپنے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اس کا کرایہ طے کر لیں اور 3 حصوں میں تقسیم کر لیں تو وہ منہ کر دیتے ہیں تو میں اس صورت میں کیا  کروں؟

ان چند مسائل میں آپ کی بہترین شرعی رہنمائی چاہتا ہوں ، جس سے میری والدہ کو اور  مجھے آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔

جواب

1۔ مذکورہ سونا جب سائل کی والدہ نے اپنے بیٹے کے قبضے میں نہیں دیا تو  یہ ان کی ملکیت نہیں ، بلکہ والدہ کی ملکیت ہے، لہذا تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا، البتہ اگر تمام شرکاء والدہ کی اس خواہش کو پورا کرنے اور والدہ کی غلطی کی تلافی  کے لیے  یہ سونا بڑے بھائی کو دے دیں تو یہ جائز ہے۔

2۔ اگر مذکورہ ڈالر آپ کی والدہ نے یہ کہہ کر دیئے تھے کہ : "رکھ لو، کام آئیں گے" تو یہ ڈالرز آپ کی ملکیت ہیں،آپ اسے ذاتی کام میں استعمال کرسکتے ہیں اور اگر  آپ چاہیں تو بقیہ  رقم بھی والدہ کے ایصالِ ثواب  کے لیے صدقہ کردیں ۔

3۔ والدہ کی زیرِ استعمال  چھوٹی بڑی تمام اشیاء ان کی میراث کا حصہ ہیں ، ان کو بھی میراث کے اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔

4۔ اگر مذکورہ آفس آپ کی والدہ کی ملکیت تھاتو اس میں تمام ورثاء کا حق ہے،  اس کا کرایہ طے کرکے  تمام ورثاء میں ان کے حصص کے مطابق  تقسیم کریں، لیکن اگر آپ کے بھائی آپ کو رضامندی اور خوشی کے ساتھ بغیر کرایہ کے آفس استعمال کرنے کی اجازت دیں تو آپ کے لیے بغیر کرایہ کے اس آفس کو استعمال کرنا جائز ہے، فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں