بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احکام سے متعلق احادیث کی تعداد کتنی ہیں؟ ادلہ تفصیلیہ واجمالیہ سے کیا مراد ہے؟


سوال

احکام سے متعلق احادیث کتنی ہیں؟ ادلہ تفصیلیہ اور ادلہ اجمالیہ سے کیا مراد ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کس طرح ملتی تھی؟ مطلب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کس طرح لیتے تھے؟

جواب

آپ کے سوال میں تین باتیں پوچھی گئی ہیں،  ذیل میں ان کے ترتیب وار جوابات ملاحظہ فرمائیں:

احکام سے متعلق احادیث:

​احکام سے متعلق احادیث کی تعداد میں مختلف اقوال منقول ہیں،بعض نے تین ہزار کہا ہے،بعض نے چار ہزار،اور بعض نے اس کے علاوہ تعداد ذکر کی ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالی  إعلام الموقعين  میں فرماتے ہیں:

"وسنة رسوله وهي بحمد الله تعالى مضبوطة محفوظة، وأصول الأحكام التي تدور عليها نحو خمسمائة حديث، وفرشها وتفاصيلها نحو أربعة آلاف حديث".

(إعلام الموقعين عن رب العالمين لمحمد بن أبي بكر، شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) بحث: هل كلف الناس كلهم الاجتهاد، 2/ 182، دار الكتب العلمية – ييروت، الأولى، 1411هـ - 1991م​)

ترجمہ: "بحمدہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت محفوظ ہے،اور بنیادی احکام   جن احادیث کے گرد گھومتے ہیں ان کی تعداد پانچ سو ہے ،اور ان کی تفصیل چارہزار احادیث میں ہے"۔

​گویا احکام کی احادیث چار ہزار پانچ سو ہیں، لیکن یہ ایک تخمینہ ہے،  اس سلسلہ میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بظاہر مشکل ہے، کیوں کہ احادیث سے احکام کے  استنباط کے طریقے  مختلف ہیں ،کسی جہت سے ان کی تعداد کم ہے ،تو دوسری جہت سےبہت زیادہ ۔

ادلۃ تفصیلیہ اور ادلۃ اجمالیہ:

ادلہ تفصیلیہ سے مراد ہر حکم کی مستقل خاص دلیل ہے، جیسے: نماز کی فرضیت کی خاص  دلیل {أَقِيمُوا الصَّلَاةَ} [البقرة: 43]  ہے،اور روزے كی خاص دليل {كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ} [البقرة: 183]ہے۔

جبکہ ادلہ اجمالیہ سے مراد وہ بنیادی مصادر اور ادلہ ہیں،  جن سے احکامِ شرعیہ مستنبط کیے جاتے ہیں،اور وہ چار ہیں: قرآن و سنت،اجماع اور قیاس۔باقی تفصیلات کے لیے اصول ِ فقہ کی کتب کی  مراجعت کیجیے۔

حضرت جبرائيل علیہ السلام کا اللہ تعالی سے وحی لینا:

​ایک حدیث ِ مبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا اللہ تعالی سے وحی لینے کا طریقہ منقول ہے ،جسے امام طبرانی نے”مسند الشاميين “میں،امام اصبہانی رحمہ اللہ تعالی نے ”حلیۃ الأولیاء“ میں روایت کیا ہے:

"حدثنا يحيى بن عثمان بن صالح وبكر بن سهل قالا: ثنا نعيم بن حماد، ثنا الوليد بن مسلم، ثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، عن عبد الله بن أبي زكريا، عن رجاء بن حيوة، عن النواس بن سمعان، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الله إذا أراد أن يأمر بأمر تكلم به، فإذا تكلم به أخذت السماء رجفة أو قال: رعدة شديدة، فإذا سمع بذلك أهل السماء صعقوا، فيخرون سجدا، فيكون أول من يرفع رأسه جبريل عليه السلام، فيكلمه الله من وحيه بما أراد، فيمر به جبريل على الملائكة، فكلما مر بسماء سألته ملائكتها: ماذا قال ربنا؟ قال: قال جبريل عليه السلام: قال ربكم الحق وهو العلي الكبير، فيقولون كلهم كما قال جبريل عليه السلام، فينتهي جبريل بالوحي حيث أمر من سماء وأرض".

​(مسند الشاميين لسليمان بن أحمد، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ)، 1/ 336، الرقم:591، مؤسسة الرسالة، بيروت، ط: الأولى- حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي  نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) ،5/ 152، السعادة - بجوار محافظة مصر، 1394هـ) 

ترجمہ:"نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالی جب کسی کام کا حکم دینے کا ارادہ فرماتے ہیں تو کلام فرماتے ہیں ،اور جب اللہ تعالی کلام فرماتے  ہیں تو آسمان میں لرزہ پیدا ہو جاتا ہے،یا فرمایا کہ سخت بجلی کڑکنے لگتی ہے،آسمان والے آواز سن کر دہشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں،اور فورا سجدے میں جا گرتے ہیں، پھر سب سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام سجدے سے سر اٹھاتے ہیں،اللہ تعالی ان سے اپنی وحی بیان فرماتے ہیں جس کا ارادہ کیا ہوتا ہے،پھر جبرئیل علیہ السلام اس حکم کو لے کر فرشتوں کے پاس جاتے ہیں،جس آسمان سے گزرتے ہیں وہاں کے ملائکہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے رب نے کیا کہا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام فرماتےہیں :تمہارا رب حق ہے وہی بلندتر اور اعلی شان والی ذات ہے،تمام ملائکہ وہی کہنے لگتے ہیں جو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ہو تا ہے، یہاں تک کہ آپ وہ وحی آسمان و زمین کے اس کونے تک پہنچادیتے ہیں جہاں کا حکم ِ الہی ہوتا ہے"۔

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی مجمع الزوائد میں یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"رواه الطبراني عن شيخه يحيى بن عثمان بن صالح، وقد وثق، وتكلم فيه من لم يسم بغير [قادح معين]، وبقية رجاله ثقات".

یعنی امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے شیخ یحیی بن عثمان بن صالح سے یہ روایت نقل کی ہے،جن کی توثیق کی گئی ہے اور بعض نے جرح مبہم کی ہے،باقی رجال ثقات ہیں۔

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، لأبي الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ)، سورة سبأ، 7/ 94، رقم الحديث: 11288، مكتبة القدسي، القاهرة، 1414 هـ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں