بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عہد صحابہ میں جنگلی جانوروں کے جنگل خالی کرنے کی تحقیق


سوال

حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ  کا خط اور افریقہ کے جنگلی جانوروں کا جنگل خالی کر کے چلا جانا۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہے ؟کیا اسد الغابہ ، معجم البلدان  کا حوالہ درست ہے؟اور  کیا یہ واقعہ سندا ثابت ہے؟

 

جواب

مذكوره واقعہ حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ تعالی کے حوالے سے   "تاریخ خلیفۃ بن خیاط" میں ہے، اس کے الفاظ درج ذیل ہیں: 

"عَن يحيى بْن عَبْد الرَّحْمَن بْن حَاطِب قَالَ: لما افْتتح ‌عقبَة ‌بْن ‌نَافِع أفريقية وقف عَلَى القيروان فَقَالَ: يَا أهل الْوَادي، إِنَّا ‌حالُّون إِن شَاءَ اللَّه فاظعَنوا، ثَلَاث مَرَّات. قَالَ: فَمَا رَأينَا حجَرا وَلَا شَجرا إِلَّا يخرج من تَحْتهُ دَابَّة حَتَّى يهبطن بطن الْوَادي، ثمَّ قَالَ: انزلوا بِسم اللَّه."

"ترجمه:جب حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ تعالی  نے افریقا فتح  کیا تو انہوں نےقیروان میں ٹھہرنےکا ارادہ کیا(تو انہوں نے) آواز لگائی: اے بستی میں بسنے والوں! آج ان شاء اللہ ہم یہاں ٹھہریں گے تم یہاں سے کہیں اور کوچ کرجاؤ، راوی کہتے ہیں  کہ ہم نے ہر ہر درخت اور پتھر کے نیچے سے جانداروں کو نکلتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ وہ وادی کی نشیبی زمین کی طرف اتر گئے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کا نام لے کر پڑاؤ ڈال لو۔"

(تاریخ خليفة بن خياط، مؤسسة الرسالة - بيروت، ١٣٩٧هـ، تحقيق: أكرم ضياء العمري، غزو أفريقية...، ٢١٠) 

 اگر چہ اس واقعہ میں خط کا کوئی ذکر نہیں ہے، واقعہ ایک ہی ہے۔کافی  تلاش کے بعد  مذکورہ واقعہ اسد الغابۃ  اور معجم البلدان میں نہیں ملا ۔ تاہم حافظ ابن حجر نے "الاصابۃ فی تمییز  الصحابۃ " میں اس واقعہ کی سند کو حسن کا درجہ دیا ہے: 

"وروى خليفةُ بإسناد حسن أنّ عقبة لما افتتح إفريقية وقف على القيروان فقال:...إلخ"

(الإصابة في تمييز الصحابة، الحافظ ابن حجر، دار الكتب العلمية - بيروت، الأولى، ١٤١٥هـ، ترجمة عقبة بن نافع بن عبد القيس، ٥/٥٠)

لہذا واقعہ کی صحت کے پیش نظر اس کو ذکر کرنا درست ہے ۔فقظ  واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144504100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں