بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک ہزار روزوں کی نذرماننے کی صورت میں فدیہ کاحکم


سوال

ایک خاتون نے نذر مانی کہ اگر میرا بھانجا(جس کاایکسڈینٹ ہوا تھا)صحت یاب ہوگیاتومیں ایک ہزار روزے رکھوں گی،اب صورتِ حال یہ ہے کہ مذکورہ خاتون کابھانجا صحت یاب ہوگیا ہے اور خاتون  کہہ رہی ہے کہ ہزار روزے رکھنا میرے لیے مشکل ہے،تو کیامذکورہ خاتون کے لیےشرعا ًروزے نہ رکھنے کی کوئی گنجائش ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے جب یہ الفاظ کہے کہ ”اگر میرابھانجاصحت یاب ہوگیا تومیں ایک ہزار روزے رکھوں گی“ تو ایسی صورت میں  اس خاتون پرایک ہزار روزے رکھنا لازم ہوں گے، البتہ مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہے اور جب تک روزے پر قدرت ہو اس وقت تک روزے کے بدلہ فدیہ دینے کی گنجائش نہیں ہوگی، البتہ اگر دائمی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت بالکل ختم ہوجائے اور مستقبل میں دوبارہ روزے پر قادر ہونے کی امید نہ رہے تو اس صورت میں ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ (صدقہ فطر کی مقدار) دینا لازم ہوگا، اور اگر زندگی میں کسی وجہ سے فدیہ نہ دے سکے تو وصیت کرجائے کہ میرے بعد میرے ترکہ میں سے مجھ پر واجب روزوں کا فدیہ ادا کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"من نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء به كذا في الهداية.

 ولو جعل عليه حجة أو عمرة أو صوما أو صلاة أو صدقة أو ما أشبه ذلك مما هو طاعة إن فعل كذا ففعل لزمه ذلك الذي جعله على نفسه ولم تجب كفارة اليمين فيه في ظاهر الرواية عندنا.

 وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط.ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الأيمان، الباب الأول في تفسير الأيمان شرعا وركنها وشرطها وحكمها،الفصل الثانی فی الکفارۃ، ج: 2، ص: 65، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"إذا نذر أن ‌يصوم ‌كل ‌خميس يأتي عليه فأفطر خميسا واحدا فعليه قضاؤه كذا في المحيط.

 ولو أخر القضاء حتى صار شيخا فانيا أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقة فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم."

(کتاب الصوم، الباب السادس فی النذر، ج:1،ص: 209، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم الوفاء بالمنذور به نفسه حقيقة، إنما يجب عند الإمكان، فأما عند التعذر فإنما يجب الوفاء به تقديرا بخلفه؛ لأن الخلف يقوم مقام الأصل، كأنه هو، كالتراب حال عدم الماء، والأشهر حال عدم الإقراء، حتى لو نذر الشيخ الفاني بالصوم، يصح نذره، وتلزمه الفدية؛ لأنه عاجز عن الوفاء بالصوم حقيقة فيلزمه الوفاء به تقديرا بخلفه، ويصير كأنه صام، وعلى هذا يخرج أيضا النذر بذبح الولد، أنه يصح عند أبي حنيفة - عليه الرحمة - ومحمد رحمه الله ويجب ذبح الشاة؛ لأنه إن عجز عن تحقيق القربة بذبح الولد حقيقة لم يعجز عن تحقيقها بذبحه تقديرا بذبح خلفه وهو الشاة، كما في الشيخ الفاني إذا نذر بالصوم."

(کتاب النذر، فصل فی حکم النذر، ج: 5، ص: 91، ط: دار الکتب العلمیة

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو قال مريض: لله علي أن أصوم شهرا فمات قبل أن يصح لا شيء عليه، وإن صح) ولو (يوما) ولم يصمه (لزمه الوصية بجميعه) على الصحيح كالصحيح إذا نذر ذلك ومات قبل تمام الشهر لزمه الوصية بالجميع بالإجماع كما في الخبازية، بخلاف القضاء فإن سببه إدراك العدة."

(کتاب الصوم، ‌‌فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج: 2، ص: 437، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں