بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احدیہ نام رکھنا


سوال

میں نے اپنی بیٹی کا نام "احدیہ" رکھا ہے۔ راہ نمائی فرمائیں کہ یہ نام درست ہے یا نہیں؟  جس طرح اللہ کے نام رشید تو لڑکی کا نام رشیدہ، رافع تو رفیعہ، مومن تو مومنہ، علیم تو علیمہ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عربی زبان میں "احد" کی مؤنث "احدیہ" کتبِ لغت میں موجود نہیں، مذکر یعنی بچے کے لیے بھی صرف "احد" نام رکھنا درست نہیں ہے، لہٰذا اس سے خود ساختہ مؤنث بناکر لڑکی کا یہ نام بھی نہ رکھا جائے۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وہ صفاتی نام جن کے مادے سے مشتق اسماء غیر اللہ کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں، جیسے علیم، رشید، عظیم، رحیم وغیرہ۔ یہ مذکر یعنی لڑکے کے نام رکھنا بھی درست ہیں، کیوں کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اسماء مذکر کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن مخلوق کی طرف نسبت کرکے اس کا معنٰی وہ نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کے وقت ملحوظ ہوتاہے، دونوں میں بعد المشرقین ہے بلکہ اسے قیاس ہی نہیں کیا جاسکتا، بہرحال مخلوق کے لیے جس معنٰی کے اعتبار سے یہ صفات استعمال ہوتی ہیں اسی معنٰی کے اعتبار سے ان کی مؤنث کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں، اسی لیے مؤنث  کے نام مؤنث کے صیغے کے اعتبار سے (مثلاً: رشیدہ، عظیمہ، علیمہ، رحیمہ) رکھ سکتے ہیں۔

مختار الصحاح (ص: 7):

" [ أحد ] أ ح د : الأَحَدُ بمعنى الواحد وهو أول العدد تقول أحد واثنان وأحد عشر وإحدى عشرة وأما قوله تعالى: { قل هو الله أحد } فهو بدل من الله؛ لأن النكرة قد تبدل من المعرفة، كقوله تعالى: { بالناصية ناصية } وتقول: لا أحَدَ في الدار ولا تقل فيها أحد ويوم الأحد يجمع على آحاد بوزن آمال وقولهم ما في الدار أحد هو اسم لمن [ ص 8 ] يعقل يستوي فيه الواحد والجمع والمؤنث قال الله تعالى: { لستن كأحد من النساء }."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں