بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احادیثِ مبارکہ ميں مذکور گناہ سے مراد کی صغیرہ یا کبیرہ؟


سوال

احادیث میں جہاں کہیں بھی ذکر آتا ہے کہ فلاں عمل سے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ تو  کیا گناہ سے مراد ہر حدیث میں صغیرہ گناہ ہی ہوتے ہیں ؟ یا بعض  احادیث میں گناہوں کی معافی سے مراد کبیرہ گناہ بھی ہوتے ہیں؟

جواب

آدمی سے خطا ونسیان سے یا کبھی کبھار نفس و شیطان کے دھوکے میں آنے کی وجہ سے گناہ ومعصیت کا صدور ہوتا رہتا ہے، اور شریعت کی طرف سے ہمیشہ اس بات کی ترغیب دی جاتی رہی ہےکہ انسان رجوع  الی اللہ کرے۔رجوع  الی اللہ کی ایک صورت یہ ہےکہ انسان توبہ اور استغفار کرے، اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے، اسی طرح  شریعت مطہرہ کی طرف سے یہ سہولت بھی دی گئی ہےکہ انسان نیک اعمال کی پابندی کرے تو وہ  اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ 

احادیث مبارکہ میں بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کے لیے مختلف اعمال کے سرانجام دینے پرگناہوں سے مغفرت کی بشارت دی گئی ہے، ان میں سے بعض کام  عظیم الشان ہیں تو بعض معمولی درجے کے۔

چناچہ صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له مت تقدم من ذنبه."

ترجمه:

"حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہےکہ آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔"

(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان، ج: 1، ص: 16، رقم: 38، ط: دار طوق النجاة)

ايك اور روايت ميں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن القارئ فأمنوا، فإن الملائكة تؤمن، فمن وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه."

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالي عنہ سے رویات ہےکہ آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ اس وقت ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین ملائکہ کی آمین کی موافق ہوتی ہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔"

(صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب التأمين، ج: 8، ص: 85، رقم : 6402، ط: دار طوق النجاة)

چناچہ مذکورہ احادیث، اور اس جیسی دیگر احادیث جن میں گناہوں کی معافی کو کسی عمل کے ساتھ مقید کیا گیا ہے ، ان تمام میں گناہوں کی معافی اور مغفرت سے مراد گناہ صغیرہ کی معافی ہے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قوله صلى الله عليه وسلم غفر له ما تقدم من ذنبه، المعروف عند الفقهاء أن هذا مختص بالصغائر دون الكبائر، قال بعضهم: ويجوز أن يخفف من الكبائر ما لم يصادف صغيرة."

"آپ صلي اللہ علیہ وسلم کا فرمان غفر له ما تقدم من ذنبه(اس كے ما سبق تمام گناہوں کفارہ کردیا جائے گا)، فقہاء كے نزدیک یہ بات معروف ہےکہ یہ صغیرہ گناہوں کی معافی کے ساتھ خاص ہے"

(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، كتاب الصلاة، باب الترغيب في قيام رمضان، ج: 6، ص: 40، ط: دار  إحياء التراث العربي -بيروت)

امام ابو بكر ابن العربي مالكي رحمه الله فرماتے ہیں:

"قوله غفر له ما تقدم من ذنبه.قال الإمام: إنما العبادات إنما تكفر  الصغائر دون الموبقات."

"يعنى عبادات کے ذریعہ صرف صغائر کی مغفرت  اور معافی ہوگی نہ کہ کبائر کی۔"

(المسالك في شرح موطأ مالك، الطهارة، الفصل الثاني في ذكر فوائد المنثورة، ج: 2، ص: 122، ط: دار الغرب الإسلامي)

"إكمال المعلم بفوائد مسلم" ميں ہے:

"وما ذكر في حديث عثمان من كفارة الذنوب بالطهارة والصلاة ما اجتنبت الكبائر، هو مذهب أهل السنة...وإن الكبائر إنما يكفرها التوبة أو رحمة الله وفضله."

(إكمال المعلم بفوائد مسلم، كتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والصلاة عقبه، 2/12، ط: دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع، مصر)

"تحفة الأحوذي" ميں ہے:

"وروى عبد الرزاق عن عكرمة، قال: صفوف أهل الأرض على صفوف أهل السماء، فإذا وافق آمين في الأرض آمين في السماء، غفر للعبد، ومثله لا يقال بالرأي، فالمصير إليه أولي، قاله الحافظ، غفرله ما تقدم من ذنبه، ظاهره غفران جميع الذنوب الماضية، وهو محمول عند العلماء على الصغائر لورود الإستثناء في غير هذه الرواية."

(تحفة الأحوذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في فضل التأمين، 2/70، ط: دار الكتب العلمية)

"عارضة الأحوذي" میں ہے:

"ما قدمناه في غيرموضع، أن هذه الطاعات إنما تكفر الصغائر، فأما الكبائر فلا تكفرها إلا الموازنة؛ لأن الصلاة لا تكفرها، فكيف العمرة، والحج، وقيام رمضان؟! ولكن هذه الطاعات ربما أثرت في القلب، فأورثت توبة تكفر كل خطيئة."

(عارضة الأحوذي، كتاب الطهارة، 4/26، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہےکہ جہاں کہیں بھي احادیث میں گناہوں کی معافی کا تذکرہ کسی عمل کے ساتھ مقید ہو کر آئے گا، تو وہاں گناہ سے مراد گناہ صغیرہ ہوں گے، البتہ اگر کسی جگہ گناہ کبیرہ کی معافی کا تذکرہ بھی موجود ہو تو وہاں گناہ کبیرہ بھی مراد ہوگا، باقی گناہ کبیرہ کی معافی کا واحد ذریعہ سچی توبہ اور آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عزم ہے۔ نیز گناہوں کی اس  معافی کا تعلق ان گناہوں سے ہوگا جو حقوق اللہ کے زمرے میں آتے ہیں، البتہ اگر کسی آدمی کا کسی دوسرے آدمی کے ذمے کوئی حق ہے، تو وہ اس وقت تک معاف نہیں ہوگا جب تک کہ صاحب حق اپنا حق معاف نہ کردے۔چناچہ حدیث شریف میں آتا ہے:

"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين."

(صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب من قتل في سبيل الله كفرت، ج: 3، ص: 1502، رقم: 1886، ط: دار إحياء التراث العربي)

شهيد كے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے یعنی سوائے قرض کے۔ یعني جب تک اس کی معافی صاحب قرض کی جانب سے نہیں ہو جاتی،  اس وقت تک اس کا گناہ اس کے ذمہ رہے گا۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں