میں حدیثوں کو ترجمہ کے ساتھ یاد کرنا چاہتا ہوں کیسے یاد ہونگی؟
احادیث رسولﷺ یادکرنا،ان پرعمل کرنا نہایت فضیلت کاباعث ہے،رسول اکرمﷺ کا ارشادہے کہ: ("جس نے میری امت کے لیے دین کی ایسی چالیس احادیث یاد کیں جو ان کے دین کے معاملات میں نفع مند ہوں، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن علماء میں اٹھائے گا، اور عالم کو عابد پر ستر درجے فضیلت حاصل ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہر دو درجوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے")دوسری روایت میں ہےکہ :("اللہ اس بندے کو تروتازہ رکھے (خوشحال کرے) جس نے میری بات سنی، پھر اسے یاد رکھا، سمجھا اور اسے (آگے) پہنچایا، کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فقہ (دین کی بات) لے کر چلتے ہیں، مگر خود فقیہ (سمجھدار) نہیں ہوتے، اور بعض فقیہ ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔تین چیزیں ایسی ہیں جن پر کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں رکھتا: (1) اللہ کے لیے عمل میں اخلاص، (2) مسلمانوں کے لیے خیرخواہی، (3) اور ان کی جماعت کو لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعا (یعنی جماعت کی برکت) ان کے پیچھے سے بھی احاطہ کرتی ہے")۔
لہذاصورت مسئولہ میں احادیث یادکرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ترجمہ کو ذہن نشین کرنے کے لئےمسلسل کسی مستند عالم سے رہنمائی حاصل کرتےرہیں،اورجو حدیث یاد ہو جائے، اُسے اپنے استاد کو سنا کر پختہ کریں،تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو اصلاح بھی ہو جائے۔یاد کی گئی حدیث پر عمل کریں،اوراپنےحلقہ احباب میں اس کا مذاکرہ کرتے رہیں، کیونکہ جس چیز پر انسان عمل کرتا ہے اوراس کا مذاکرہ کرتا رہتا ہے وہ دل میں بیٹھ جاتی ہے۔
شعب الایمان بیهقي میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حفظ على أمتي أربعين حديثا فيما ينفعهم من أمر دينهم بعثه الله يوم القيامة من العلماء وفضل العالم على العابد سبعين درجة الله أعلم بما بين كل درجتين."
(طلب العلم، فصل في فضل العلم وشرف مقداره، رقم الحديث:1725، ج:2، ص:270، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
مشکوٰۃالمصابیح میں ہے:
"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نضر الله عبدا سمع مقالتي فحفظها ووعاها وأداها فرب حامل فقه غير فقيه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه. ثلاث لا يغل عليهن قلب مسلم إخلاص العمل لله والنصيحة للمسلمين ولزوم جماعتهم فإن دعوتهم تحيط من ورائهم . رواه الشافعي والبيهقي في المدخل."
(كتاب العلم، الفصل الثاني، رقم الحديث:228،ج:1، ص:78،ط:المكتب الإسلامي بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101120
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن