بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر شریکین میں سے ایک کو زیادہ اور ایک کو کم نفع ملتاہوتوکیا نقصان بھی نفع کے اعتبار سے بھرناپڑےگا؟


سوال

دو پارٹنر ہیں دونوں نے برابر پیسے لگائے ہیں، اور دونوں نفع نقصان میں بھی شریک ہیں، دونوں نے اپنے لیے 45 ،45 فیصد نفع خاص کیا ہے ،اور تیسرے شخص کے لیے جو ان کے ساتھ کام کرے گا 10فیصداس کےلیے  متعین کیا ہے کہ اس کو بطور اجرت کے دس فیصد منافع دیں گے، ابھی دونوں شرکاء میں سے ایک کہتا ہے کہ جو 10 فیصد دوسرے کو دینے ہیں وہ مجھے دے دو ،میں بطور ورکنگ پارٹنر کے بھی کام کروں گا۔

اب سوال یہ ہے کہ نفع میں تو ایک کو 45 فیصد ملے گا اور دوسرے کو ورکنگ پارٹنر ہونے کی وجہ سے 55 فیصد ملے گا تو جو 10 فیصد اضافی مل رہا ہے ورکنگ پارٹنر ہونے کی وجہ سے ، اب اگر کمپنی نقصان کرتی ہے تو جو 10 فیصد ورکنگ پارٹنر کو ملتا تھا تو وہ نقصان کون بھرے گا ؟

جواب

واضح رہے شراکت داری میں نفع کی تقسیم فریقین کی باہمی رضامندی سے فیصد کے اعتبار سے طے کرناضروری ہے،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد ی، یا اگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے،یا کاروبار کو زیادہ وقت دیتاہے،تو  اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانے کی شرعا  اجازت دی گئی ہے، البتہ نقصان میں شرکاء اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرنے کے  ذمہ دار ہوتے ہیں۔

لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں  دونوں شریک  نے چوں کہ برابر سرمایہ لگایا ہے، لہذا نقصان ہونے کی صورت میں دونوں آدھا آدھا نقصان برداشت کریں گے،اگرچہ نفع میں ایک کو زیادہ اور ایک کو کم ملنا طے پایا ہو۔

باقی تیسرے شخص کےلیے اجرت کے طور پر10 فیصد نفع مقرر کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ اس کے لیے اجرت متعین کرنا ضروری ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح، وقال زفر والشافعي لا يجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثا فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان فيستحق بقدر الملك في الأصل ولنا قوله - عليه السلام - «الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين» ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة."

(كتاب الشركة، شركة العنان، ج5، ص188، دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا عرف هذا فنقول: إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال."

(کتاب الشرکۃ،فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،ج2،ص62،ط: دار الکتب العلمیۃ)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".

(كتاب الشركة،استحقاق الربح في طريق الشركةج11،ص157،دار المعرفة - بيروت) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وهو أن تكون الأجرة مالا متقوما معلوما وغير ذلك مما ذكرناه في كتاب البيوع."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی انواع شرائط رکن الاجارۃ، ج :4، ص:194، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610102074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں