مجھے میرے شوہر نے طلاق کے مختلف جملے کہے ہیں، ان سب کا حکم دریافت کرنا ہے۔
1-تم مجھے چھوڑ دو، میں نے تمہیں چھوڑدیا ہے۔
2-تم مجھ سے آزاد ہو، دوسرا خاوند کرسکتی ہو۔
3-میرے اور تیرے تمام تر رشتے ختم ہیں۔
4-چاندی میرا اور تیرا ختم ہے۔بس صرف بچے تک باقی ہے۔
5-میری والدہ جب تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس نے بتادیا تھا کہ ہماری طرف سے بات ختم ہوچکی ہے۔
وضاحت:سب سے پہلا جملہ جو شوہر نے کہا ہے وہ یہ ہے کہ تم مجھے چھوڑ دو، میں نے تمہیں چھوڑدیا ہے۔اس کے تین چار مہینے بعد جب کہ مجھے تین سے چار بار ماہواری آئی، اور کوئی حمل نہیں تھا، یعنی عدت گزر گئی تھی، اور عدت میں شوہر نے قولاً ( مثلاً شوہر کا یہ کہنا کہ میں بیوی سے رجوع کرتاہوں وغیرہ )یا عملاً ( یعنی ملاپ یا شہوت کے ساتھ چھونا یا بوس وکنار ) رجوع بھی نہیں کیا تھا کہ شوہر نے دوبارہ مذکورہ بالا الفاظ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق کہے۔
نوٹ:میاں بیوی اب ایک سال سے علیحدہ رہتے ہیں، ایک سال سے کسی قسم کا تعلق اور رابطہ دونوں میں نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا شوہر نے مذکورہ جملے مختلف مواقع پر سائلہ (بیوی) کو کہے ہیں، تو جس وقت شوہرنے سب سے پہلے سائلہ کو یہ جملہ کہا کہ ” تم مجھے چھوڑدو، میں نے تمہیں چھوڑدیا ہے“ تو” چھوڑدیا“ کا جملہ صریح طلاق کا جملہ ہے، لہذا اس جملہ سے سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد جب شوہر نے اپنی بیوی کی عدت ( پوری تین ماہوریاں اگر حمل نہیں تھا، اور اگر حمل تھا تو بچے کی پیدائش تک ) میں قولاً ( مثلاً شوہر کا یہ کہنا کہ میں بیوی سے رجوع کرتاہوں وغیرہ ) یا فعلاً ( یعنی ملاپ یا شہوت کے ساتھ چھونا یا بوس وکنار ) رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوگیا تھا، عدت گزرنے کے بعد طلاق کے جس قسم کے بھی جتنے الفاظ اداکیے تھے، وہ محل نہ ہونے کی وجہ سے لغو واقع ہوئے، اب اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا، تجدیدنکاح کے بعد شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات، 299/3، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد ، فأما زوال الملك ، و حل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."
(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق (3/ 180)،ط.دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح."
(کتاب الطلاق ،باب العدۃ،ج:3،ص:397،ط:سعید)
فتاوی ٰ ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء...والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."
(الباب الثالث عشر في العدۃ ج:1 ص:526 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100185
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن