اگر کوئی عورت بدچلن یا بدکردار ہو یا اس پر بدکرداری کا شک ہو دونوں صورت حال میں اولاد اپنی والدہ کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھے؟
واضح رہے کہ بلاوجہ کسی مسلمان پر بدکردار ہونے کا شک نہیں کرنا چاہیے ،جب تک کہ کوئی مضبوط ثبوت و شواہد نہ مل جائے یا وہ شخص خود گناہ کا اعتراف نہ کرلے ۔لہذا صورت مسئولہ میں اگر عورت واقعۃ بدکردار ہے تو اس کی اولاد کے لئے شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان کو انتہائی ادب و احترام اور نرمی سے سمجھانے کی کوشش کریں، اس لئے کہ والدین کا ادب واحترام اور ان کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے،ان کے ساتھ سختی سے بات چیت کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جائےاور اگر ممکن ہو تو خود ان سے کچھ کہنے کے بجائے کسی بزرگ یا ان کے ہم مرتبہ شخص سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے،نیزان کی اصلاح اور گناہ سے بچنے کے لیے خوب دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"[فرع] في فصول العلامي: إذا رأى منكرا من والديه يأمرهما مرة، فإن قبلا فبها، وإن كرها سكت عنهما واشتغل بالدعاء والاستغفار لهما فإن الله تعالى يكفيه ما أهمه من أمرهما.
له أم أرملة تخرج إلى وليمة وإلى غيرها فخاف ابنها عليها الفساد ليس له منعها بل يرفع أمرها للحاكم ليمنعها أو يأمره بمنعها."
(كتاب الحدود،باب التعزير،4/ 78،ط:سعید)
فقظ والله أعلم
فتوی نمبر : 144410100667
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن