بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر نمازوں کا فدیہ ایک تہائی سے پورا نہ ہوسکے، تو کیا کیا جائے؟


سوال

میت کا ترکہ اتنا ہے کہ اگر نماز کے فدیہ میں دیا جائےتو کچھ نہیں بچے گا،اب تمام ترکہ کو بطور فدیہ دیا جائے یا ایک تہائی دیا جائے؟

جواب

میت پر اگر کچھ نمازیں قضاء ہوں، تو اس کا فدیہ ادا کرنے کی  دو صورتیں ہیں:

1۔ ایک یہ کہ میت نے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے  کی وصیت ہی نہ کی ہو، اگر میت نے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت   نہ کی ہو، تو ایسی صورت میں ورثاء پر اس کے ترکہ سے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ  ترکہ ورثاء میں شرعی حساب سے تقسیم ہوگا البتہ اگر تمام ورثاء جو کہ عاقل،  بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سے اس کا فدیہ ادا کردیں، تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، جس پر آخرت میں وہ اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میت  نے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو، اگر میت نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت ہو اور وہ فدیہ میت کے ایک تہائی مال سے ادا کرنا ممکن ہو، تو ایسی صورت میں ورثاء پر مکمل فدیہ ادا کرنا لازم اور ضروری ہے اور اگر وہ فدیہ میت کے ایک تہائی مال سے ادا کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں ایک تہائی مال تک فدیہ  ادا کرنا ورثاء پر لازم ہے، اس سے زیادہ ادا کرنا ورثاء پر لازم نہیں ہے، بلکہ ان کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر تمام ورثاء جو کہ عاقل،  بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سےادا کردیں، تو یہ ان کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر میت نے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو، تو  ایک تہائی مال سے ادا کرنا لازم ہے، اس سے زیادہ لازم نہیں ہے، اگر تمام ورثاء (جو کہ عاقل بالغ ہوں) اپنی رضامندی سے ادا کرنا چاہیں، تو کرسکتے ہیں۔

اور اگر میت نے وصیت نہیں کی، تو ایک تہائی مال سے بھی ادا کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ  اگر تمام ورثاء (جو کہ عاقل بالغ ہوں) اپنی رضامندی سے ادا کردیں، تو یہ ان کے لیے اجر وثواب کا باعث ہوگا۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:72، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں