بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر میں نے آئندہ چوری کی تو میرے گھر سے بھی چوری ہو، اللہ سے دعا کرنا


سوال

اگر کوئی شخص چوری کرنے سے باز  نہیں آ سکتا  ہو تو اسے چھوڑنے  کے لیے اللہ سے دعا کرے  کہ اگر اس نے آئندہ چوری کی تو اس کے گھر سے بھی چوری ہو،  کیا یہ کرنا درست ہے کہ اللہ کے  ڈر سے چوری نہیں چھوڑ سکتا تھا، لیکن اب  اپنے گھر چوری ہونے کے ڈر سے چوری چھوڑ رہا ہے !

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  لیے برائی یا نقصان کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، لہذا چوری کی عادت چھوڑنے کے  لیے ایسی دعا کرنا شرعًا درست نہیں، البتہ عادت ترک کرنے کے  لیے اپنے  لیے سزا  مقرر کرسکتے ہیں،  جیسے اگر  اب میں نے چوری کی تو  ایک تو چوری کا سامان خود  واپس کروں گا اور  دوسرا یہ کہ اتنے ہزار روپے یا مثلًا ایک لاکھ روپے صدقہ بھی کروں گا۔

سنن أبي داود میں ہے:

"١٥٣٢ - حدثنا هشام بن عمار، ويحيى بن الفضل، وسليمان بن عبد الرحمن، قالوا: حدثنا حاتم بن إسماعيل، حدثنا يعقوب بن مجاهد أبو حزرة، عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت، عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتدعوا على أنفسكم، و لاتدعوا على أولادكم، و لاتدعوا على خدمكم، و لاتدعوا على أموالكم، لاتوافقوا من الله تبارك و تعالى ساعة نيل فيها عطاء، فيستجيب لكم». قال أبو داود: «هذا الحديث متصل، عبادة بن الوليد بن عبادة، لقي جابرًا»."

( باب تفريع أبواب الوتر، باب النهي عن أن يدعو الإنسان على أهله وماله، ٢ / ٨٨، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

شرح سنن أبي داود للعيني میں ہے:

قوله: " فيستجيب لكم " بالنصب؛ لأنه جواب النهي، والمعنى: إن كانت منكم موافقة الساعة التي فيها العطاء يكون من الله الاستجابة لدعائكم."

( كتاب الصلاة، باب: النهي أن  يدعو الإنسان على أهله وماله، ٥ / ٤٤٢، ط: مكتبة الرشد - الرياض)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

٢٢٢٩- (وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لاتدعوا": أي: دعاء سوء " على أنفسكم ": أي: بالهلاك، ومثله " «ولا تدعوا على أولادكم» ": أي: بالعمى ونحوه، " «ولا تدعوا على أموالكم» ": أي: من العبيد والإماء بالموت وغيره " لا توافقوا ": نهي للداعي، وعلة للنهي أي: لا تدعوا على من ذكر لئلا توافقوا " من الله ساعة ": أي: ساعة إجابة " يسأل ": أي: الله " فيها عطاء ": بالنصب على أنه مفعول ثان، وفي نسخة بالرفع على أنه نائب الفاعل ليسأل، أي: ما يعطى من خير أو شر كثر استعماله في الخير " فيستجيب ": بالرفع عطفا على يسأل، أو التقدير: فهو يستجيب " لكم ": أي: فتندموا بخط السيد جمال الدين أنه وقع في أصل سماعنا بالرفع، وقال بعض الشراح: أي: لئلا تصادفوا ساعة إجابة فتستجاب دعوتكم السوء."

(كتاب الدعوات، ٤ / ١٥٢٦، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں