بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر ماں کے پاس بچوں کے ایمان کو خطرہ ہو تواس صورت میں بچوں کی پرورش کا حق کس کو ہوگا؟


سوال

میری شادی 2006 میں ہوئی، میری اہلیہ پہلے عیسائی مذہب سے تھیں، لیکن پھر اسلام قبول کر کے مجھ سے شادی کرلی، ان سے میرے دو بچے ہیں، پھر 2016 میں یہ معاملہ آیا کہ میری بیوی جب اپنے والدین (جو کہ عیسائی ہیں) کے پاس ملنے جاتی تو ان کے ساتھ عبادت گاہوں میں بھی جاتی اور ان کے ساتھ تہواروں کے موقع پر بھی شرکت کرتی جس سے مجھے اس عورت کے واپس اپنے مذہب (عیسائیت) کی طرف لوٹنے کا شک ہوا، میں نےاسے روکا بھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اس عمل سے نہیں رکی، بالآخر اس عورت نے مجھ سے جان چھڑانے کے لیے عدالت میں مجھ پر خلع کا کیس دائر کیا اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئی، اب میرے بچوں کی وہاں اسلامی تعلیمات کی بجائے ان کے مذہب کے مطابق پرورش ہوگی جس سے میں راضی نہیں، اب میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے ان کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنا چاہتا ہوں، جبکہ ان کی پہلے سے اسلامی تعلیم بھی جاری تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ میری بیوی میرے پاس واپس آئے یا نہیں  جو بھی ہو لیکن کہیں میرے بچوں کو اپنے مذہب میں نہ ڈال دے، اس لیے میرے ان بچوں کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ مجھے واپس مل سکتے ہیں؟ میرے بڑے بیٹے کی عمر 11 سال ہے اور چھوٹے کی 6 سال۔

جواب

واضح رہے کہ بچوں کی پرورش اور تربیت کا حق ایک ایسا  شرعی حق ہے  جو ان کے  متعلقہ افراد کو  اس لیے  ملتا ہے کہ  اس حق میں اس ناسمجھ بچے کی بہتری پیش نظر ہوتی ہے جو خود سے اپنے آپ کو  سنبھال نہیں  سکتا ہے ،  اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کھانے پینے، پہننے، سونے، جاگنے  اور دیگر ضروریات  میں کوئی اس کی ہر وقت نگرانی کرے   اسی بات کے پیشِ نظر  چھوٹی عمر کے بچوں کی پرورش کا حق شریعت نے سب سے پہلے ان کی ماں کو دیا ہے،اور جب بچہ 7 سال کی عمر کا ہوجائے اور بچی 9 سال کی  ہوجائے   تو پھر یہ حق ان کے باپ کو منتقل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ان کا باپ ہی ان کی پرورش کاسب سے زیادہ حق دار ہوتاہے،  لیکن چوں کہ بچوں کے ایمان کی حفاظت کرنا یہ شریعت کا سب سے اہم تقاضا   ہے لہٰذا اگر ماں کافر ہ یا  فاسقہ ہو تو ایسی صورت میں اس عمر سے پہلے بھی بچوں کو ان کی ماں کی پرورش سے نکالا جا سکتا ہے ، اسی بنا پر   صورتِ مسئولہ میں چوں کہ     سائل کے بچوں کے اپنی ماں کی پرورش میں رہنے سے ان کے   دین اور ایمان   کو نقصان پہنچنے کا  قوی اندیشہ ہے کہ بچے   کافرانہ طریقوں سے مانوس ہونے لگیں گے،لہٰذا  سائل کے بچوں  کو ان کی ماں  کی پرورش سے نکال کر سائل کے حوالے کیا جائےگا، اور سائل پر لازم ہے کہ ان کی پرورش اور تربیت اسلامی احکام کے مطابق، شفقت اور خوش اسلوبی سے کرے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ومن مشايخنا من يقول: إذا كانت ‌كافرة فعقل الولد فإنه يؤخذ منها جارية كانت، أو غلاما؛ لأنه مسلم بإسلام الأب وإنها تعلمها الكفر فلا تؤمن من الفتنة إذا تركت عندها فلهذا تؤخذ منها."

(كتاب النكاح، باب حكم الولد عند افتراق الزوجين، ج:5، ص:210، ط:دار المعرفة)

رد المحتار میں ہے:

"قال الرملي: ويشترط في ‌الحاضنة أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:555، ط:ايچ ايم سعيد)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

"3 - الأمانة في الدين، فلا حضانة لفاسق، لأن الفاسق لا يؤتمن، والمراد: الفسق الذي يضيع المحضون به، كالاشتهار بالشرب، والسرقة، والزنى واللهو المحرم، أما مستور الحال فتثبت له الحضانة. قال ابن عابدين: الحاصل أن ‌الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها، وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل الولد فجور أمه فينزع منها."

(حضانة، ما يشترط فيمن يستحق الحضانة، ج:17، ص:306، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں