بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1446ھ 07 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کوئی مسلمان کفریہ عقیدہ اختیار کرلے تو کیا حکم ہوگا؟


سوال

ہمارا تعلق سنی گھرانے سے ہے جو دینی معاملات اور دنیاوی امور میں قرآن و سنت کی روشنی میں عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے، ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، اور الحمد للہ والدہ بھی حیات ہیں، تاہم والد کا انتقال ہوچکا ہے، تمام بھائی اور بہنیں شادی شدہ ہیں اور علیحدہ علیحدہ اپنے معاملات میں آزاد ہیں، ہمارا ایک بھائی گزشتہ کچھ عرصے سے اور بالخصوص والد کے انتقال کے بعد شیعہ عقائد اختیار کر چکا ہے، مثلًا مروجہ شرکیہ عقائد، قرآن و حدیث کے مستند ہونے میں شکوک و شبہات یا ان کے شیعہ عقائد کے مطابق تشریح اور تعلیم، توہین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور عبادات میں شیعہ عقائد اپنانا، ماتم، نوحہ وغیرہ، اپنی زندگی میں بھی ہمارے والد نے بھائی کو اس رجحان سے روکنے کی بہت کوشش کی، مگر بے سود رہی، بھائی کی زوجہ نے کبھی اس فعل اور تبدیلی کو روکنے کی کوشش نہیں کی، اور نہ اس پر کبھی اعتراض کیا اور اب بھی ساتھ ہیں، ان کی کوئی اولاد نہیں، مگر کچھ سال قبل ان دونوں نے ایک بچہ گود لیا تھا، اور باوجود ہمارے اعتراض کے اس کے کوائف نادرا میں ہمارے خاندان کے ہی لکھوا دیے یعنی ولدیت میں اپنا نام لکھوایا، براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل معاملات میں راہ نمائی فرمائیں:

1- کیا بھائی کے ساتھ ملنا جلنا یا دیگر تعلقات رکھے جاسکتے ہیں؟
2- کیا بھائی کے ساتھ لین دین اور دیگر مالی معاملات رکھے جاسکتے ہیں؟
3- کیا ہم ان کے گھر اور وہ ہمارے گھر آنا جانا رکھ سکتے ہیں؟
4- کیا دین کے فرائض اور واجبات میں ہم اور وہ شریک ہوسکتے ہیں؟ مثلاً: عید الفطر، عید الاضحی، قربانی وغیرہ۔
5- ایسے انسان کے انتقال کی صورت میں ہم کو کیا کرنا ہوگا؟ یعنی کفن دفن اور وراثت وغیرہ معاملات کس طرح کیے جائیں گے؟
6- جو بچہ انہوں نے گود لیا ہے، اس سے متعلق کیا احکام ہوں گے؟
7- دیگر دنیاوی معاملات جو اوپر لکھنے سے رہ گئے ہیں، ان ضروری معاملات میں بھی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔
نیز عام زندگی میں بھی بھائی  کا رویہ عمومی طور پر پریشان کن رہا ہے، اور ہر ایک کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنا اس کا معمول ہے، یہاں تک کہ ہماری والدہ بھی اس رویہ سے محفوظ نہیں رہتی، ہم نے حتی الامکان کوشش کی کہ ان کو سمجھایا جائے کہ عقائد کی اصلاح کرلیں مگر چند دن پہلے وہ سب کے سامنے اپنے شیعہ عقائد اعلانیہ طوہر پر ظاہر کر چکے ہیں اور ان عقائد پر رابطہ  ختم کرنے کو ترجیح دی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کا بھائی کسی کفریہ عقیدے کا قائل ہوچکا ہے، مثلاً: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھے، یا حضرت جبریل علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ انہوں نے وحی پہنچانے میں غلطی کی، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا انکار کرے، یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر قذف و تہمت لگائے، تو ایسی صورت میں یہ قطعیات کا منکر ہونے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، اب اگر وہ ان عقائد سے توبہ تائب ہو کر دوبارہ اسلام قبول نہیں کرتا ہے، تو 
1- 2- 3- متعلقین کے لیے اس سے ملنا جلنا، مالی لین دین کرنا اور اس کے گھر آنا جاناجائز نہیں ہے، اس سے لاتعلقی اختیار کی جائے۔
4-  اس کو مسلمانوں کی خوشیوں اور قربانی میں شریک کرنا جائز نہیں ہے، اگر اس کو قربانی میں شریک کیا تو مسلمانوں کی قربانی بھی نہیں ہوگی۔
5-  اسی حالت میں انتقال کی صورت میں اس کے کفن دفن میں شریک نہ ہوا جائے۔ نیز وہ کسی مسلمان کا وارث نہیں بنے گا، اور حالتِ ارتداد میں بنائی گئی اس کی جائیداد کا کوئی مسلمان بھی وارث نہیں بنے گا۔

6- مذکورہ بھائی نے جو بچہ گود لیا تھا اس کا نسب اس کے حقیقی والدین سے ہی جوڑا جائے؛ اس لیے کہ کسی کی بھی ولدیت بدلنا قرآن و سنت کی رو سے ناجائز ہے۔

7- سائل کو جو سوال پوچھنا ہے، وضاحت سے وہ سوال کرلے، ان شاء اللہ جواب جاری کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ مذکورہ تفصیل کے مطابق حکم اس وقت ہوگا جب سائل کے بھائی کا واقعتًا کوئی کفریہ عقیدہ ہو، اگر کوئی کفریہ عقیدہ نہیں ہے تو  اس صورت میں یہ حکم نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا قال في شرح منية المصلي: إن ساب الشيخين ومنكر خلافتهما ممن بناه على شبهة له لا يكفر، بخلاف من ادعى أن عليا إله وأن جبريل غلط؛ لأن ذلك ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد بل محض هوى اهـ وتمامه فيه. قلت: وكذا يكفر قاذف ‌عائشة ومنكر صحبة أبيها؛ لأن ذلك تكذيب صريح القرآن كما مر في الباب السابق."

(کتاب الجھاد، باب البغاۃ، ج:4، ص263، سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،ج:٨، ص: ٣١٤٧، دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن) (كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم) (لم يجز عن واحد) منهم لأن الإراقة لا تتجزأ هداية لما مر.
(قوله: وإن كان شريك الستة نصرانيا إلخ) وكذا إذا كان عبدا أو مدبرا يريد الأضحية لأن نيته باطلة لأنه ليس من أهل هذه القربة فكان نصيبه لحما فمنع الجواز أصلا بدائع."

(کتاب الأضحية، ج:6، ص:326، سعيد)

وفيه أيضا:

"(قوله: فيلقى في حفرة) أي و لايغسل، و لايكفن؛ و لايدفع إلى من انتقل إلى دينهم، بحر عن الفتح."

(کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، ج:2، ص:230، سعید)

وفيه أيضا:

"(ويزول ملك المرتد عن ماله زوالا موقوفا، فإن أسلم عاد ملكه، وإن مات أو قتل على ردته) أو حكم بلحاقه (ورث كسب إسلامه وارثه المسلم)
(قوله: ورث كسب إسلامه وارثه المسلم) أشار إلى أن المعتبر وجود الوارث عند الموت أو القتل أو الحكم باللحاق، وهو رواية محمد عن الإمام، وهو الأصح."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، ج:4، ص:247، سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144607102496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں