بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اگرکوئی شخص ساٹھ سال سے زیادہ لاپتہ ہوتو اس کےمال کا کیا حکم ہے؟


سوال

ہم تین بھائی ہیں اور ایک بھائی 1953سے لاپتہ ہے اور وہ غیرشادی شدہ ہے ،ہم تینوں بھائیوں  کےنام  الگ الگ زمین ہے ، کیا اس گمشدہ بھائی کی زمین ہم موجود دونوں بھائی اپنےنام کراسکتے ہیں یا نہیں ؟

مفقو دبھائی کے ورثاء میں دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ،والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مفقود اس آدمی کو کہا جاتاہے جو اپنے اہل وعیال سے غائب ہوگیا ہو  ، پھر اس کے زندہ ہونے یانہ ہونے کی  کوئی خبر نہ ہو، تو ایسے شخص  کو اپنی ذات کے حق میں زندہ تصور کیا جاتاہے ، یعنی  اس  کی  بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی، اور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں کی جاتی ، البتہ لاپتہ شخص کو میت اس وقت تصور کیا جاتاہے، جب  پیدائش کے وقت سے اس کی عمر ساٹھ سال ہوجائے،  اور اس کے بعد متعلقہ عدالت سے  اس کی موت کا سرٹیفکٹ لے لیا جائے ،پس عدالت کی جانب سے مردہ قرار دیےجانے کےبعد اس کی تمام املاک کو گمشدہ  شخص کا ترکہ شمار کیا جائے گا ،جسے اس کے موجود  ورثاء میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرناضروری ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں سائل اپنے گمشدہ بھائی  کی زمین آپس میں تقسیم کرنے کا فی الحال مجازنہیں، اس کے لیے اسے عدالت سے رجوع کرکے1953 سے   بھائی کی گمشدگی کو ثابت کر کے اس کے مردہ ہونے کا سرٹیفکٹ  حاصل کرنا ضروری  ہوگا۔ جس کے بعد مذکورہ  بھائی کی تمام متروکہ اموال کو دو بھائیوں اوردوبہنوں میں تقسیم کیا جائےگا، دو بھائیوں کے لیے تنہا مالک بننے کی شرعا اجازت نہیں ہوگی، بلکہ بھائیوں اور بہنوں میں ایک اور دو کے تناسب  سے تقسیم کی جائے گی، یعنی گمشدہ  بھائی  کےکل ترکہ منقولہ وغیر  منقولہ کو 6حصوں میں تقسیم کرکے،دو ،دو حصے مرحوم کےہر  ایک بھائی کو،اورایک، ایک حصہ مرحوم کی ہرایک بہن کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:(بھائی )مسئلہ :6

بھائی بھائیبہنبہن
2211

یعنی مرحوم کے ترکہ کا 33.333 فیصد ہرایک بھائی کو، 16.666 فیصد  مرحوم کی ہر ایک بہن کو ملے گا۔

امداد الفتاوی میں ہے: 

[مفقود کی میراث کے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ]

’’حاصل اس عبارت کا یہ ہے کہ خود مفقود کا مال تو اس کے ورثہ میں اس وقت تقسیم ہوتا ہے جب قاضی حاکم مسلم اس کی موت کا حکم کر دے باقی اس حکم بالموت کے قبل اگر اس کا کوئی مورث مرجا وے تو اس کے ترکہ میں سے اس مفقود کا حصہ امانت رکھا جاتا ہے، اگر یہ زندہ آگیا تو اپنا حصہ لے لے گا، اور اگر حکم بالموت کی نوبت آگئی تو جن جن وارثوں کا حصہ کم کر کے اس مفقود کے لئے رکھا گیا تھا، وہ سب رکھا ہوا ان ورثہ کو مل جاوے گا ...‘‘

(کتاب الفرائض :ج: 4، ص: 362، ط: دارالاشاعت) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)....قوله: على المذهب) وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله - عليه الصلاة والسلام - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا ... قال في البحر: والعجب كيف يختارون خلاف ظاهر المذهب مع أنه واجب الاتباع على مقلد أبي حنيفة. وأجاب في النهر بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج، فعن هذا اختاروا تقديره بالسن ... قلت: وقد يقال: لا مخالفة بل هو تفسير لظاهر الرواية وهو موت الأقران، لكن اختلفوا؛ فمنهم من اعتبر أطول ما يعيش إليه الأقران غالبا، ثم اختلفوا فيه هل هو تسعون أو مائة أو مائة وعشرون، ومنهم وهم المتأخرون اعتبروا الغالب من الأعمار، أي أكثر ما يعيش إليه الأقران غالبا لا أطوله فقدروه بستين؛ لأن من يعيش فوقها نادر والحكم للغالب، وقدره ابن الهمام بسبعين للحديث؛ لأنها نهاية هذا الغالب ويشير إلى هذا الجواب."

(كتاب المفقود، ج:4 ص:296 ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي. وإذا أوصى له توقف الموصى به إلى أن يحكم بموته فإذا حكم بموته يرد المال الموصى به إلى ورثة الموصي، كذا في التبيين."

(کتاب المفقود، ج:2، ص:300، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الدر:إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة.... وفي الرد:رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء."

(كتاب المفقود، (فرع)أبق بعد البيع قبل القبض، ج:4 ص:297 ط: سعيد)

فتح القدیرمیں ہے:

"قال المصنف: (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

(‌‌كتاب المفقود، ج:6 ص:149 ط: دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں