بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کوئی اہل التشییع کے ہاں ملازم ہو تو اس کے لیے تنخواہ لینا اور ان کے گھروں کا کھانا پینا کیسا ہے؟


سوال

 اگر کوئی شیعہ کے گھر ملازم ہو تو اس کے لیے تنخواہ لینا اور ان کا کھانا پینا کیسا ہے؟

جواب

1-   شیعہ  کے گھر میں  ملازمت  کرنا جائز ہے اور  تنخواہ بھی حلال ہے، لیکن اگر شیعہ کے گھر  ملازمت کرنے میں عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہویا خود اپنی یا دیگر اہلِ حق کی توہین وتذلیل کا اندیشہ ہو تو ایسے شیعہ کے گھر میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

2- اہل التشیع کے گھر کا   کھانا صرف اہلِ تشیع ہونے کی وجہ سےحرام نہیں ہوگا، البتہ اگر  کھانے  میں کوئی ناپاک وحرام چیز ملائی گئی  ہو، اور یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو، یا   ذبیحہ کسی ایسے اہلِ تشیع  کا ہو  جس کا عقیدہ کفر کی حد تک پہنچتا ہو یا غیر اللہ کا نام لے کر اس نے ذبح کیا ہو تو اس صورت میں اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ 

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فإن استأجر الذمي أو المستأمن مسلما لخدمته حرا، أو عبدا فهو جائز، ولكن يكره للمسلم خدمة الكافر لما فيه من معنى الذل، وليس للمؤمن أن يذل نفسه، ولكن هذا النهي لمعنى وراء ما به يتم العقد."

(المبسوط للسرخسی: کتاب الإجارات، باب إجارة الرقيق في الخدمة وغيرها (16/ 56)،ط. دار المعرفة – بيروت، 1414هـ = 1993م)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو استأجر ذمي مسلمًا ليخدمه ذكر في الأصل أنه يجوز وأكره للمسلم خدمة الذمي أما الكراهة فلأن الاستخدام استذلال فكأن إجارة المسلم نفسه منه إذلالا لنفسه وليس للمسلم أن يذل نفسه خصوصا بخدمة الكافر. وأما الجواز فلأنه عقد معاوضة فيجوز كالبيع."

(بدائع الصنائع: كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة (4/ 189)،ط. دار الكتب العلمية،الطبعة: الثانية، 1406هـ =1986م)

البحر الرائق میں ہے:

"قال محمد رحمه الله تعالى: يكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها جاز إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، وإذا علم حرم ذلك عليه قبل الغسل، والصلاة في ثيابهم على هذا التفصيل.ولا بأس بطعام اليهود والنصارى من أهل الحرب ولا فرق بين أن يكونوا بني إسرائيل أو من نصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كلها إلا الذبيحة."

(البحر الرائق: كتاب الكراهية: فصل في البيع (8/ 232)،ط. دار المعرفة، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں