بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر گاڑی نماز کے لیے نہ روکی جائے تو نماز کا طریقہ


سوال

اگر سفر میں گاڑی نماز کے لیے نہ روکےیا موٹروے پر نماز کی جگہ نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے اس صورت میں؟

جواب

فرض نماز  کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تَنْ دُرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہ  ہوگی، نیز گاڑی میں قبلہ رخ رہنا بھی ممکن نہیں ہے، لہذا گاڑی رکوا کر اتر کر نماز ادا کی جائے، اگر کسی نے چلتی کار، وین وغیرہ میں قیام کے بغیر یا قبلہ کا رخ کیے بغیر فرض نماز ادا کرلی تو اس کو دہرانا لازم ہے۔

"بس" کے بارے میں ذرا تفصیل ہے کہ اگر شہر  سے باہر لمبا سفر ہو اور بس ڈرائیور کہنے کے باوجود بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو، تو دیکھا جائے گا کہ اگر بس کے اندر  قبلہ رُخ ہوکر قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو اس طرح نماز ادا کرے۔ چناں چہ اگر بس قبلہ رخ چل رہی ہو یا مخالف سمت جارہی ہو اور سیٹوں کے درمیان فاصلہ ہو تو قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس صورت میں اگرقیام(کھڑے ہونے) کے لیے سہارا لینا پڑے تو اس کی اجازت ہوگی، اگرپورے قیام کے دوران سہارا لینا پڑے اور ہاتھ نہ باندھ سکے تب بھی قیام نہ چھوڑے ، سہارا لے کرقیام، رکوع اورسجدےکے ساتھ نماز ادا کرے۔ اگر بس کے زیادہ حرکت کرنے یاچکرآنے کی وجہ سے قیام نہ کرسکے تواسی راہ داری میں بیٹھ کربس کے فرش(زمین) پرسجدہ کرتے ہوئے نماز اداکرے، البتہ اگر بس شمالاً جنوباً (پاکستان وغیرہ میں) جارہی ہو تو یہ کیا جاسکتاہے کہ سیٹ کی طرف رخ کر کے قیام اور رکوع کیا جائے اور سجدے کے لیے سیٹ پر بیٹھ کر سامنے والی سیٹ پر سجدہ کرلیا جائے۔

اور اگر بس میں مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار وغیرہ کا ڈرائیور گاڑی نہ روکے) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لے ، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالی لاتجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة".(کتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں