بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر دوسری شادی نہ کی تو پہلی بیوی مجھ سے فارغ ہے


سوال

 ایک شخص دوسری شادی کرنا چاہتاہے ، لیکن خاندان والے مخالفت کررہے ہیں ، اس دوران بحث  ومباحثے میں اس شخص نےکہا کہ مجھے قسم ہے ، اگر میں نے چھ مہینوں  کے اند ر دوسری شادی نہ کی تو پہلی بیوی  مجھ سے فارغ ہے ، یہاں نیت بھی طلاق ہی کی تھی ، اب آیا اگر مدت پور اہونے تک دوسری شادی نہیں کرتا تو کیا کفارہ اداکرنا ہو گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں جس شخص نے یہ قسم کھائی کہ ” اگر میں نے چھ مہینوں  کے اند ر دوسری شادی نہ کی تو پہلی بیوی  مجھ سے فارغ ہے “ تو اس صورت میں اگر شخص نے چھ مہینوں کے اندر دوسری شادی نہ کی تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ، نکاح ختم ہوجائے گی اور آپس میں بغیر تجدید  نکاح ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا، اس کے بعد اس شخص کو دوطلاقوں کا اختیار ہوگااور اس شخص پر قسم کا کفارہ بھی اداکرنالازم ہوگا،کفارہ میں  دس       مسکینو ں کو   صبح        شام کھانا کھلانا یادس  مسکینوں کو ایک  ا یک جوڑ  ا   کپڑا  دینا اگر اس کی قدرت نہ ہو تو مسلسل  تین دن روزے رکھنے ہو ں گے  ۔

الدرالمختار میں ہے:

"و نحو خلية برية حرام بائن) و مرادفها كبتة بتلة (يصلح سبًّا، ... ففي حالة الرضا) أي غير الغضب و المذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرًا (على نية) للاحتمال ...(و في الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع و إلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)."

(باب الکنایا ت 3/297 ط: سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"و أما الطلاق بالكناية: (‌و هو ‌كل ‌لفظ يحتمل الطلاق و غيره، و لم يتعارفه الناس، مثل قول الرجل لزوجته: الحقي بأهلك، اذهبي، اخرجي، أنت بائن، أنت بتَّة، أنت بتلة، أنت خلية، برية، اعتدي، استبرئي رحمك، أمرك بيدك) فلا يقع قضاء في رأي الحنفية والحنابلة إلا بالنية أو دلالة الحال على إرادة الطلاق، كأن يكون الطلاق في حالة الغضب، أو في حال المذاكرة بالطلاق."

(باب الکنایات 1/221ط:دار الفكر)

الدرالمختار میں ہے :

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات3/296ط:سعید)

ہدایہ میں ہے :                                                                              

"قال: " ومن حلف على معصية مثل أن لايصلي أو لايكلم أباه أو ليقتلن فلانًا ينبغي أن يحنث نفسه و يكفر عن يمينه " لقوله عليه الصلاة والسلام: "من حلف على يمين ورأى غيرها خيرًا منها فليأت بالذي هو خير ثم ليكفر عن يمينه" و لأن فيما قلنا تفويت البر إلى جابر و هو الكفارة و لا جابر للمعصية في ضده."

(كتاب الأيمان فصل في الكفارة2/  479ط:رحما نیہ)

قرآن  کریم  میں ہے :

{فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةأَيَّامٍ}

(المائدة: 89)

ترجمہ:سو اس کا کفارہ  دس محتاجو ں کو کھانا  دینا اوسط  درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو  یا  ان کو کپڑا دینا  یا ایک  غلا م یا لو نڈی آزاد کر نا  اور جس کو مقدور نہ  ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔

( بیان القر آن ص510ط:رحمانیہ)

درمختار میں ہے :

"(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام (ولو أدى الكل) جملة أو مرتبا ولم ينو إلا بعد تمامها للزوم النية لصحة التكفير (وقع عنها واحد هو أعلاها قيمة، ولو ترك الكل عوقب بواحد هو أدناها قيمة) لسقوط الفرض بالأدنى (وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا، حتى لو وهب ماله وسلمه ثم صام ثم رجع بهبة أجزأه الصوم مجتبى. قلت: وهذا يستثنى من قولهم الرجوع في الهبة فسخ من الأصل (صام ثلاثة أيام ولاء)."

(كتاب الأيمان3/725ط:سعید)

ہندیہ میں ہے :

"و إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

( كتاب الطلاق ،الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة1/420ط: دار الفكر)

در مختار میں ہے :

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقًا)."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق3/355 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں