بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر بچے کا اسقاط ہوگیا تو میں تمہیں طلاق دوں گا / اگر بچے کا اسقاط ہوگیا تو میری طرف سے تمہیں طلاق ہے


سوال

 اگر ایک عورت حاملہ ہو اور اس کا شوہر اس کو کہے کہ: "اگر بچے کا اسقاط ہوگیا تو میں تمہیں طلاق دوں گا یا میری طرف سے تمہیں طلاق ہے"  اب کچھ عرصہ بعد بچے کا اسقاط ہوجاتا ہے۔

اس صورت میں درج بالا دونوں صورتوں میں کون سی طلاق واقع ہوگی؟ طلاق رجعی، یا بائن؟

ازراہِ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیجیے!

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  مذکورہ خاتون کے شوہر نے یہ کہا تھا  کہ: " اگر بچے کا اسقاط ہوگیا تو میں تمہیں طلاق دوں گا" تو اس صورت میں  اسقاط کے بعد  جب تک شوہر طلاق نہیں دے گا اس وقت تک مذکورہ جملہ سے بیوی پر  کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیوں کہ مذکورہ جملہ مستقبل میں طلاق دینے  کی دھمکی ہے، اور طلاق دینے کی دھمکی سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

البتہ دوسرا جملہ " اگر بچے کا اسقاط  ہوگیا تو میری طرف سے  تمہیں طلاق ہے"  کہنے کی صورت میں اسقاط حمل کے ساتھ ہی مذکورہ خاتون پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، جس کے بعد دوران عدت شوہر کو اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کا حق حاصل ہوگا، عدت کے دوران رجوع نہ کرنے کی صورت میں  عدت مکمل ہوتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا،  پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا، البتہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے تعین کے ساتھ  باہمی رضامندی سے تجدید نکاح کرنا  جائز ہوگا، بہر صورت (اگر اس کے علاوہ طلاق نہیں دی ہے تو)  آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا."

( كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ١ / ٣٨٤، ط: دار الفكر)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

" صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

( كتاب الطلاق، ١ / ٣٨، ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ١ / ٤٧٠، ط: دار الفكر)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

" فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه، وهو خاطب من الخطاب يتزوجها برضاها إن اتفقا على ذلك."

( كتاب الطلاق، باب الرجعة، ٦ / ١٩، ط: دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403100598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں