بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ’’اگر آپ پشاور گئی آپ کو طلاق ہے ‘‘ کہنے کا حکم


سوال

میری اہلیہ نے کہا کہ :” جب میں پاکستان جاؤں گی تو پشاور گھومنے پھرنے جاؤں گی“   مجھے چوں کہ گھومنا پھرنا پسند نہیں، اس لیے میں نے کہا کہ " اگر آپ پشاور گئی تو آپ کو طلاق ہے۔ "  اب جب میری بیوی پاکستان گئی تو ایک دن اچانک بچی کی طبیعت خراب ہوگئی ،  مجھے میسج کرکے اجازت لینے کی کوشش کی، لیکن میرا واٹس ایپ بند تھا اور میری بیوی بچی کو چیک کرانے پشاور چلی گئی  آیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ  کی بیوی  کے پشاور جانے کی وجہ  سے  اس پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے ،البتہ آپ کے لیے اپنی بیوی کی  عدت  میں  ( یعنی مکمل پوری تین ماہواریاں  گزرنے سے پہلے اگر حمل نہ ہواور اگر حمل ہوتو بچے کی پیدائش تک )  رجوع  کرنے کا حق ہے، اگر عدت میں قولاًیا فعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ ’’میں نے رجوع کیا ‘‘  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے یا اسی طرح بوس و کنار وغیرہ کرلیا تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگرآپ نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی آپ کا نکاح  ختم ہو جائے گا، اور آپ کی بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوجائے گی، تاہم  بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ  ساتھ  رہنا چاہیں تو  دوگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ  دوبارہ  نکاح کرسکتے ہیں ، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) سائل   نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو اس کو  آئندہ کے  لیے مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

كما في الفتاوی الهندية:

"وَإِذَا أَضَافَهُ إلَى الشَّرْطِ وَقَعَ عَقِيبَ الشَّرْطِ اتِّفَاقًا مِثْلُ أَنْ يَقُولَ لِامْرَأَتِهِ: إنْ دَخَلْتُ الدَّارَ فَأَنْتِ طَالِقٌ".

(كتاب الطلاق، الْبَابُ الرَّابِعُ فِي الطَّلَاقِ بِالشَّرْطِ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي تَعْلِيقِ الطَّلَاقِ بِكَلِمَةِ إنْ وَإِذَا وَغَيْرِهِمَا، ١ / ٤٢٠، ط: دار الفكر)

وفي الهداية في شرح بداية المبتدي :

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231]"

(2/254ط:دار الكتب العلمية )

وفيه أيضًا :

"و لا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها... الخ"

(2/ 7ط:دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضًا:

"وإذا كان الطلاق بائنًا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها؛ لأنّ حلّ المحلية باق؛ لأنّ زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه."

(2/ 257ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144301200094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں