بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اغواکاری کی شرعی سزا کیا ہے؟


سوال

اسلام میں بچوں اور بڑوں کے اغوا پر کیا سزا ہے؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ نے اغواء کاری کی سزا  یا حد  متعین نہیں کی  ہے، بلکہ اس کی سزا کو  مسلمان حاکم و  قاضی کی صواب دید  پر موقوف رکھا ہے، یعنی جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے  وہ جو سزا دینا چاہے دے سکتا ہے،  جسے شریعت کی اصلاح میں” تعزیر“  کہا جاتا ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعات” 359“  تا ”369 “  تحت  اغواکاری کی مختلف نوعیتوں جیسے اغوا برائے تاوان، اغوا برائے قتل،  نا بالغ بچے بچیوں کے اغواء  وغیرہ صورتوں کی متعدد سزائیں درج ہیں، جیسے کسی میں کم از کم پانچ سال قید، زیادہ سے زیادہ عمر قید  ( پچیس سال قید) ، کسی میں سزائے موت ہے، مذکورہ سزائیں شریعت  سے متصادم نہیں۔

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"قوله: كل معصية ليس فيها حد مقدر ففيه التعزير. في شرح الطحاوي كما تقدم، والأصل في وجوب التعزير أن من ارتكب منكرا أو آذى مسلما بقوله أو فعله وجب عليه التعزير إلا إذا كان ظاهر الكذب."

( كتاب الحدود و التعزير، 2 / 182، ط: دار الكتب العلمية)

«ا لأشباه والنظائر - ابن نجيم» (ص158):

«رَجُلٌ ‌خَدَعَ ‌امْرَأَةَ إنْسَانٍ وَأَخْرَجَهَا وَزَوَّجَهَا مِنْ غَيْرِهِ، أَوْ صَغِيرَةً، يُحْبَسُ إلَى أَنْ يُحْدِثَ تَوْبَةً أَوْ يَمُوتَ؛ لِأَنَّهُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ. كَذَا فِي قَضَاءِ الْوَلْوَالِجيَّةِ»

«المحيط البرهاني في الفقه النعماني» (5/ 506):

في «المنتقى» : ابن سماعة عن محمد في رجل ‌خدع ‌امرأة رجل أو ابنته، وهي صغيرة، وأخرجها من منزل أبيها أو زوجها؛ قال: أحبسه حتى يأتي بها، أو يعلم حالها.

وفيه أيضاً: عن أبي يوسف؛ رجل سرق صبياً، فسرق من يده، ولم يستبن لهم موته، ولا قتله لم يضمن، ولكنه يحبس حتى يأتي به، أو يعلم حاله.

الفتاوى العالكيرية = الفتاوى الهندية» (2/ 170):

«رجل ‌خدع ‌امرأة رجل، أو ابنته، وهي صغيرة، وأخرجها، وزوجها من رجل قال محمد - رحمه الله تعالى -: أحبسه بهذا أبدا حتى يردها، أو يموت، كذا في الفتاوى الكبرى.»

 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں