بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کوئی خاتون اپنے بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتی، تو اس کا حکم


سوال

ایک عورت اپنے بچوں کے حقوق بالکل ادا نہیں کرتی ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتی، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے اسلام نے پاکیزہ، پرسکون اور پر لطف زندگی کے لیے جو اصول وضوابط تعلیم فرمائے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ عورت شوہر کے گھر کی، اس کے مال و اسباب کی اور اس کے بچوں کی مکمل نگرانی و حفاظت کرتی رہے، یہ اس کے فرائض و ذمے دار یوں میں دا خل کیا گیا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر شخص نگران ہے، اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی، آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائےگا، عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے، اس سے اس کی رعیت (بال بچوں) کی باز پرس ہوگی۔" 

(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن، رقم الحدیث:893، ج:2، ص:05، ط:دارطوق النجاۃ)

"راعی" کا معنی وہ امانت دار نگران، جو اس چیز کی اصلاح و تدبیر میں لگا رہتا ہے جو اس کی ذمے داری میں دی گئی ہو۔ اور عورت کی نگرانی یہ ہے کہ گھریلوں امور اور اولاد کی تدبیر کرے اور اس معاملے میں شوہر کا تعاون کرے۔ عورت پر شادی کے بعد جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، ان میں اپنے بچوں کی تربیت اور تعلیم بہت ہی اہم ذمے داری ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اگر چہ باپ پر بھی عائد ہوتی ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں ماں جو کردار ادا کرسکتی ہے، اس کے مقابلے میں باپ کی حیثیت ثانوی درجہ کی رہ جاتی ہے۔ اس لیے کہ ماں کی گود، بچے کا سب سے پہلا مدرسہ و تعلیم گاہ ہوتی ہے، پھر بچے کو ماں سے دن رات کے چوبیس گھنٹے میں اکثر اوقات سابقہ پڑتا ہے، جب کہ باپ سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے، اس لیے عورت پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی یہ اہم ذمے داری باپ سے زیادہ عائد ہوتی ہے، اگر کوئی خاتون اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو وہ عنداللہ ماخوذ ہوگی۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا) للتنبيه («كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته» ) . في النهاية الرعية كل من شمله حفظ الراعي ونظره («فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته») يقال: رعى الأمير القوم رعاية فهو راع ; أي قام بإصلاح ما يتولاه، وهم رعية فعيلة بمعنى مفعول، ودخلت التاء لغلبة الاسمية («والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده»): أي ولد زوجها (وهي مسئولة عنهم) عن حق زوجها وأولاده، وقال الطيبي: الضمير راجع إلى بيت زوجها وولده، وغلب العقلاء فيه على غيرهم («وعبد الرجل راع على مال سيده») في شرح السنة معنى الراعي هنا: الحافظ المؤتمن على ما يليه، أمرهم النبي صلى الله عليه وسلم بالنصيحة فيما يلونهم، وحذرهم الخيانة فيه بإخباره أنهم مسئولون عنه، فالرعاية حفظ الشيء وحسن التعهد، فقد استوى هؤلاء في الاسم ولكن معانيهم مختلفة، أما رعاية الإمام ولاية أمور الرعية: فالحياطة من ورائهم، وإقامة الحدود والأحكام فيهم. ورعاية الرجل أهله: فالقيام عليهم بالحق في النفقة، وحسن العشرة. ورعاية المرأة في بيت زوجها: فحسن التدبير في أمر بيته والتعهد بخدمة أضيافه."

(كتاب الامارة والقضاء، ج:6، ص:2402، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205201310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں