بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں ماموں کی گاڑی نہیں چلاؤں گا، اگر میں گاڑی چلاؤں تو میں کافرہوں وغیرہ کہنے کا حکم


سوال

میرے چھوٹے بھائی نے غصّے میں قسم کھائی کہ میں ماموں کی گاڑی نہیں چلاؤں گا، اگر میں گاڑی چلاؤں تو میں کافر،میں خدا اور اس کے رسول کو نہیں مانتا، پھر میرے ماموں نے انہیں مجبور کیا اور انہوں نے گاڑی چلائی، میرا بھائی شادی شدہ ہے، اب اس طرح کی قسم کا کیا حکم ہے، قسم کا کفارہ کیا ہے؟

وضاحت: مذکورہ الفاظ سے میرے بھائی کا مقصد سخت قسم لینا تھا، باقی کوئی نیت نہیں تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ الفاظ "  اگر میں گاڑی چلاؤں تو میں کافر،میں خدا اور اس کے رسول کو نہیں مانتا" کہنے کا حکم یہ ہے کہ جب مذکورہ الفاظ  کہنے والے کا ان الفاظ سےمقصود محض  قسم کھانا ہے تو  قسم کے ٹوٹنے کی صورت میں مذکورہ الفاظ کہنے والا کافر نہ ہوگا،نکاح بدستور برقرار ہے، البتہ قسم توڑنے  کی وجہ سے مذکورہ شخص پر قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہو گا، تاہم  اس طرح کی قسمیں نہیں کھانی چاہیے۔

نیز قسم کا کفارہ یہ ہے کہ   دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوٰی الہندیۃ) میں ہے:

"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا كذا في البدائع.حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرا اختلف المشايخ فيه قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرا لرضاه بالكفر، وكفارته أن يقول: لا إله إلا الله محمد رسول الله، وإن كان عنده أنه إذا أتى بهذا الشرط لا يصير كافرا لا يكفر".

(کتاب الإیمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا، الفصل الأول في تحليف الظلمة وفيما ينوي الحالف غير ما ينوي المستحلف، ج:2، ص:52، ط:مکتبۃ رشیدیۃ)

شرح ملّا علی القاری علی الفقہ الاکبر میں ہے:

"و إذا قال هو یهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء من الإسلام أو ما أشبه ذلك، إن فعل کذا علی أمر في المستقبل فهو یمین عندنا، والمسئلة معروفة، فإن أتی بالشرط وعندہ أنه یکفر کفر، و إن کان عندہ أنه لایکفر متی أتی بالشرط لایکفر متی أتی به، وعلیه کفارۃ الیمین أي لاغیر، ویکون قصدہ بذلك الکلام المبالغة عن امتناعه وتقبیحه لذلك المرام، و إن حلف بهذہ الألفاظ علی أمر في الماضي، وعندہ أنه لایکفر کاذبا لا کفارۃ علیه لأنه غموس أي بغمس صاحبه في النار لکونه كبیرۃ ".

(مطلب في إیراد الألفاظ المکفرۃ، فصل في الکفر صریحا وکنایة، ص:191، ط: مکتبة رحمانیة)

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(و) القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو)  ...  شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس.

واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا.

(قوله : فيكفر بحنثه) أي تلزمه الكفارة إذا حنث إلحاقا له بتحريم الحلال، لأنه لما جعل الشرط علما على الكفر وقد اعتقده واجب الامتناع وأمكن القول بوجوبه لغيره جعلناه يمينا نهر".

(کتاب الإیمان، ج:3، ص:717 /718، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں