۱) ایک لڑکی آغا خانی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ لڑکا کہتا ہے کہ میں اسلام قبول کرلوں اور میرے گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن شادی کے بعد دونوں میاں بیوی آغا خانی فیملی کے ساتھ رہیں گے۔معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی صورت میں اس آغا خانی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
۲) بعد میں لڑکا واپس آغا خانی مذہب اختیار کر لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
۳) کن شرائط پر آغا خانی لڑکے کے ساتھ شادی ہوسکتی ہے؟
۱) آغا خانی لوگ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور مسلمان لڑکی کا آغا خانی لڑکے سے نکاح جائز نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آغانی خانی لڑکا سچے دل سے اپنے کفریہ عقائد سے توبہ کرلیتا ہے اور اسلام قبول کرلیتا ہے تو پھر مذکورہ لڑکی کا نکاح مذکورہ لڑکے سے ہوجائے گا، لیکن مذکورہ لڑکی کے لیےبہتر یہ ہی ہے کہ ایسے لڑکے سے اس کا نکاح نہ کرایا جائے، تاکہ آغاخانی فیملی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنا ایمان خطرہ میں نہ رہے، اور اولاد کو بھی ان کی مذہبی چیزوں سے بچانا مشکل ہوگا بلکہ کوئی دوسرا جوڑ کا دین دار لڑکا تلاش کر لیا جائے۔
۲) اگر اسلام قبول کرنے او ر نکاح کرنے کے بعد مذکورہ لڑکا دوبارہ آغا خانی ہوگیا تو پھر نکاح ٹوٹ جائے گا ۔
۳) آغاخانی اپنے کفریہ عقائد سے توبہ کر کے سچے دل سے اسلام قبول کرلے تب ہی اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(القسم السابع المحرمات بالشرك) . لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء، كذا في السراج الوهاج. ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده، كذا في فتح القدير."
(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج نمبر۱،ص نمبر ۲۸۱، دا رالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة بغير طلاق في الحال قبل الدخول وبعده ثم إن كان الزوج هو المرتد فلها كل المهر إن دخل بها ونصفه إن لم يدخل بها وإن كانت هي المرتدة فلها كل المهر إن دخل بها وإن لم يدخل بها فلا مهر لها."
(کتاب النکاح، باب عاشر، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۳۹، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن