آغا خان فاؤنڈیشن ہمارے علاقے میں عوام الناس کو کاروبار کرنے کے لئے بلاسود رقم مہیا کرتا ہے، کیا اس رقم سے کاروبار کرنا شرعا جائز ہے؟اس رقم میں کسی قسم کی کوئی شرط نہیں۔
آغاخانی اپنے باطل عقائد ونظریات کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج اور مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ ہے،اور عام طور پر غیر مسلموں کی رفاہی تنظیمیں اپنے باطل عقائد اور نظریات کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کے لئے اس طرح کے تعاون کرتی ہیں ؛تاکہ سادہ لوح مسلمان ان کے تعاون سے متاثر ہوکر ان کے مذہب کی طرف مائل ہوں ؛لہذا اگر ان سے امداد لینے میں آئندہ زمانے میں یا موجودہ وقت میں دینی اعتبار سے نقصان کا اندیشہ ہو تو ان سے امداد لینا جائز نہیں اور اگر کسی بھی صورت میں دینی اعتبار سے نقصان کا غالب اندیشہ نہیں ہو اور ان سے امداد لینے میں مسلمانوں کی مصلحت ہو تو پھر ان سے امداد لینا جائز ہوگا۔
'أحکام القرآن' للجصاص میں ہے:
"و في هذه الآیة دلالة علی أنه لاتجوز الاستعانة بأهل الذمة في أمور المسلمین من العمالات و الکتبة."
(أحکام القرآن، للجصّاص، آل عمران، باب الاستعانة بأهل الذمة، ج: 2، ص: 47، ط: دار الكتب العلمية)
چناں چہ تکملہ فتح الملہم میں ہے:
”والذي یتخلص من مجموع الروایات أنّ الأمر في الاستعانة بالمشرکین موکول إلی مصلحة الإسلام والمسلمین، فإن کان یؤمن علیهم من الفساد، وکان في الاستعانة بهم مصلحة فلا بأس بذلك إن شاء اللہ إذا کان حکم الإسلام هو الظاهر، و یکون الکفار تبعًا للمسلمین، و إن کان للمسلمین عنهم غنی أو کانوا هم القاد ة و المسلمون تبعًا لهم أو یخاف منهم الفساد فلایجوز الاستعانة بهم.“ (ج:۳‘ ص:۲۶۹)
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر: / 345، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102508
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن