بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر شوہر بے نمازی ہوتوکیا عورت اس کے ساتھ رہ سکتی ہے؟


سوال

اگر کسی عورت کے شوہر نماز نہیں پڑھتے تو کیا عورت اس شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ جس طرح مرد کا ذمہ بیوی کی دینی تربیت اوروحانی نفقہ ہے، اسی طرح بیوی  کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کو دین دار بنانے کی کوشش کرے، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں :

’’عورتیں دینی حقوق میں ایک کوتاہی یہ کرتی ہیں کہ مرد کو جہنم کی آگ سے بچانے کا اہتمام نہیں کرتیں، اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتی کہ مرد ہمارے واسطے حلال و حرام میں مبتلا ہے،  اور کمانے میں رشوت وغیرہ سے احتراز نہیں کرتا تو اس کو سمجھائیں،  کہ تم حرام آمدنی مت لیا کرو،  ہم حلال ہی میں اپنا گزر کر لیں گی،  علی ھذا (اسی طرح)  اگر مرد نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کو بالکل نصیحت نہیں کرتیں، حالانکہ اپنی غرض کے لیے اس سے سب کچھ کرا لیتی ہیں، اگر عورت مرد کو دیندار بنانا چاہے تو اس کو کچھ مشکل نہیں، مگر اس کے لیے ضرورت اس کی ہے کہ پہلے تم دین دار بنو !نماز اور روزے کی پابندی کرو!  پھر مرد کو نصیحت کرو، انشاءاللہ اثر ہوگا، اگر عورت ذرا بھی مضبوطی اور ہمت اختیار کرے تو مرد کو بہ مجبوری متقی بننا پڑے گا ، بہت سی مثالیں ایسی موجود ہیں کہ عورتوں نے مردوں پر زور دیا کہ اگر تم رشوت نہ چھوڑو گے، ( زکوۃ نہ دو گے، نماز نہ پڑھو گے) تو ہم تمہاری کمائی نہیں کھائیں پیئیں گی، ادھر مرد وعورت کا محبت کا تعلق،  ادھر اس خلوص کی برکت اس مجموعہ کا اثر یہ ہوا کہ مردوں کو رشوت سے توبہ کرنا پڑی ۔‘‘

(تحفۂ زوجین، بیوی کے ذمے شوہر کے حقوق،ص:48، ط: البشری)

  لہذا عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کا مزاج سمجھ کر اسے نیکی کی طرف مائل کرے ،اگر شوہر   نرمی اور محبت کے ساتھ  بات کو قبول کرتا ہو توشفقت و محبت کے ساتھ  دعوت اور ترغیب دیتی رہے، اور اگر شوہر عورت کا ناز  بردار ہو تو تنبیہ کے لیے بے رخی  بھی کرسکتی ہے،غرض یہ کہ عورت مرد کی خیر خواہی میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے،اور   اسے جہنم کی آگ  سے بچانے کی پوری کوشش کرے،پھر بھی اگر شوہر نماز میں سستی و لاپرواہی کرے  تو وہ  گناہ گار ہے،بیوی کے لیے  اس کے ساتھ رہنے میں مضائقہ نہیں، نیز بیوی کے لیے اس وجہ سے شوہر کے حقوق میں کوتاہی کرنا بھی درست نہیں ۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

أن «رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله: إن امرأتي لا تدفع يد لامس، فقال عليه السلام طلقها، فقال: إني أحبها وهي جميلة، فقال عليه السلام استمتع بها» وفي المجتبى من آخر الحظر والإباحة: لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا. اهـ

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات،ج: 3،ص:114،ط:دار الکتاب)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة ولا ‌عليها ‌تسريح ‌الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا.

قال العلامه  ابن عابدين رحمه الله تعالي:

"(قوله: ولا عليها) أي بأن تسيء عشرته أو تبذل له مالا ليخالعها. (قوله: إلا إذا خافا) استثناء منقطع؛ لأن التفريق حينئذ مندوب بقرينة قوله فلا بأس لكن سيأتي أول الطلاق أنه يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة ويجب لو فات الإمساك بالمعروف فالظاهر أنه استعمل لا بأس هنا للوجوب اقتداء بقوله تعالى {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] فإن نفي البأس في معنى نفي الجناح فافهم."

(کتاب النکاح،فروع، ج:3،ص:50،ط:سعید)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"ثم ان الهجران الممنوع انما هو ما كان لسبب دنيوي، اما اذا كان بسبب فسق المرء و عصيانه فاكثر العلماء علي جوازه، قال الخطابي: رخص للمسلم ان يغضب علي اخيه ثلاث ليال لقلته، و لا يجوز فوقها الا اذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالي، فيجوز فوق ذلك ، و في حاشية السيوطي علي المؤطا: قال ابن عبدالبر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك و رفيقيه حيث امرصلي الله عليه و سلم اصحابه بهجرهم، يعني زيادة علي ثلاث الي ان بلغ خمسين يوماو حاصل ذلك: ان الهجران انما يحرم اذا كان من جهة غضب نفساني، اما اذا كان علي وجه التغليط علي المعصية و الفسق او علي وجة التاديب كما وقع مع كعب بن مالك و صاحبيه  او كما وقع لرسول الله صلي الله عليه مع ازواجه او لعائشة مع ابن الزبير رضي الله عنه فانه ليس من الهجران الممنوع والله سبحانه اعلم."

کتاب البر و الصلة و الآداب، باب تحریم الھجر فوق ثلاث بلاعذر شرعی،ج: 5،  ص: 275، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں