ہمارے ایک بھائی نے قسم اٹھالی کہ ’’اگر زمین پانچ سال کے لئے میرے حوالہ نہیں کی تو میں اس گھر یعنی والدین کے گھر آیا تو بیوی طلاق‘‘ اس بھائی کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے،وہ زمین آبائی ہے اور ابھی تمام اختیارات والد کے پاس ہیں ،ہم سب گھر والے شہر میں رہتے ہیں اور وہ بھائی گاؤں میں رہتاہے،ہم اس سے یہ کام چھڑوانا چاہ رہے تھے لیکن وہ گاؤں چھوڑنا نہیں چاہتے، اس پر انہوں نے کہا ،اس کے ایک سال سے اختیارات بھائی کے پاس ہیں ،والد نے پانچ سال کے لئے زمین اس کے حوالے کردی ہے ،ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیےعورت کا نکاح میں ہونایا طلاق کی نسبت نکاح کی طرف ہونا ضروری ہے،لہذاصورت مسئولہ میں سائل کے غیر شادی شدہ بھائی نے جویہ الفاظ کہے تھے کہ ـ’’ اگر زمین پانچ سال کے لئے میرے حوالہ نہیں کی تو میں اس گھر یعنی والدین کے گھر آیا تو بیوی طلاق‘‘ تو ان الفاظ سے طلاق معلق نہیں ہوئی تھی،اس لئے کہ الفاظ کہتے وقت اس بھائی کا نکاح نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس نے طلاق کی نسبت نکاح طرف کی تھی ، لہذا اگر سائل کے والد اپنی زمین اس بیٹے کے حوالہ نہ کریں اور یہ بیٹا والدین کے گھر آجائے تو اس سے اس بیٹے کی شادی کے بعد اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق) وكذا كل امرأة ويكفي معنى الشرط إلا في المعينة باسم أو نسب أو إشارة فلو قال: المرأة التي أتزوجها طالق تطلق بتزوجها، ولو قال هذه المرأة إلخ لا لتعريفها بالإشارة فلغا الوصف (فلغا قوله لأجنبية إن زرت زيدا فأنت طالق فنكحها فزارت) وكذا كل امرأة أجتمع معها في فراش فهي طالق فتزوجها لم تطلق، وكل جارية أطؤها حرة فاشترى جارية فوطئها لم تعتق لعدم الملك والإضافة إليه."
(كتاب الطلاق، باب التعليق، 3/ 344، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن