بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر زبردستی کسی سے پیسے لیے ہوں تو واپسی کس قیمت پر کرنی ہوگی؟


سوال

 فرض کریں کہ کسی نے ہم سے زبردستی کچھ پیسے لئے، اب تقریباً 18 یا 19 سال بعد وہ شخص وہی پیسے دینا چاہتاہے، وہ کہتا ہےاپنا حق لے لو، تو اس کے لینے کی شرعی طور پر کیا ترتیب ہے؟ اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ لیکن ہم اُنہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت آپ نے یہ پیسے لئے اس وقت سونے کا تولہ تقریباً 8000 کا تھا، اور آج ایک تولہ سونا 2 لاکھ 10 ہزار کا ہے، جتنے پیسے آپ نے لئے اُس سے اُس وقت تقریباً 10 تولے سونا لیا جاسکتا تھا، لیکن آج ان پیسوں سے 1 تولہ بھی نہیں خریدا جاسکتا، اگر آپ نے ہمارا حق آج کے دور میں دینا ہے، حال آں کہ لیا 19 سال پہلےتھا تو آج کے دور کے مطابق وہی 18 تولے سونے کی قیمت دو، ہم اُنہیں یہ کہہ رہے، کیا شرعی طور یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟شریعت کےمطابق ہم یہ پیسے اُس سے کیسے لیں؟

جواب

واضح رہے کہ از   رُوئے  شرع زبردستی کسی سے پیسے لینا غصب میں آتا ہے،اوراس سے فائدہ اٹھانا  گناہِ کبیرہ (بڑا  گناہ) ہے، ایساکرنے  والے کو چاہیے کہ اس عمل سے خوب توبہ  و  استغفار کرکے صدق دل سے معافی مانگے،  اور غصب میں  مغصوبہ چیز  اصل مالک کے حوالہ  کرنے سے غاصب بری  الذمہ ہو جاتا ہے ،لہذا صورت مسئولہ میں   مغصوبہ رقم (جتنی رقم غاصب نے18یا 19 سال پہلے غصب کی تھی )اصل مالک کے حوالہ  کرنے سے غاصب بری الذمہ ہو جائے گا، اس سے زائد رقم غاصب کے ذمے نہیں ہے۔نیز سائل کا غاصب سے 18 تولہ سونے کی قیمت کے حساب سے پیسے لینا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب رد عين المغصوب) ما لم يتغير تغيرا فاحشا مجتبى (في مكان غصبه) لتفاوت القيم باختلاف الأماكن (ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء."

(كتاب الغصب، ج:6، ص:182، ط:سعيد)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «‌ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

[باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر.]

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

[كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں