میں نے نیت کرکے سنت کے مطابق داڑھی رکھی ہے، اور بال بھی سنت کے مطابق(زلفیں) رکھی ہیں، مگر مجھے ہر بندہ یہاں تک کہ میں میرے والدین بھی مجھے اور میری بیوی پرتنقید کرتے ہیں۔
برائے مہربانی اس حوالہ سے مجھے مشورہ دیں۔
جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام ہے اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے ، لہذا اگر والدین اس معاملہ میں آپ پر تنقید کرے یا داڑھی کاٹنے کا حکم دے تو ایسی صورت میں اللہ تعالی کی معصیت میں والدین کی اطاعت لازم نہیں، البتہ سر کے لمبے بالوں (زلفیں)کے بارے میں سنتِ مبارکہ سنت عادیہ میں سے ہونے کی وجہ سے والدین کے کہنے پر کم کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جامع الترمذی میں ہے:
" عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی."
(أبواب الأدب، باب ماجاء في إعفاء اللحية، ج:2، ص:105، ط:دارالسلام)
صحیح البخاری میں ہے:
"وعن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: انهکوا الشوارب وأعفوا اللحی."
(كتاب اللباس، باب إعفاء اللحى، ج:2، ص:875، رقم الحديث:5893، ط:دارالفكر بيروت)
العرف الشذی میں ہے:
" وأما تقصیر اللحیة بحیث تصیر قصیرة من القبضة، فغیر جائز فی المذاهب الأربعة․"
(كتاب الآداب، باب ماجاء في تقليم الأظفار، ج:4، ص:162، ط:دارالكتب العلمية)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:من كان له شعر فليكرمه."
(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الثاني، ج:2، ص:1265، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
وفیہ ایضاً:
"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."
(كتاب الإمارة، والقضاء، الفصل الثاني، ج:2، ص:1092، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"والسنة نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي عليه الصلاة والسلام في لباسه وقيامه وقعوده."
(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:1، ص:103، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408101488
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن