بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر والدہ بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

میری والدہ میرے سے ناراض ہیں،  کیوں کہ میرے والد  نے دوسری شادی میری بیوی کی خالہ سے کرلی،  جس کا علم خاندان میں کسی کو نہیں تھا،  میرے  والد  کی وفات ہو گئی ہے،  میری  والدہ  کا سلوک میرے  والد  سے ٹھیک نہیں تھا، نہ ہی میرے بہن بھائی کا،  والدہ چاہتی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو اس بات کی سزا دوں،  یا میں اپنے باپ سے کہتا کہ وہ  طلاق دے اپنی دوسری بیوی کو،  ورنہ میں طلاق دے دوں گا جو کہ میں نے نہیں کیا،  میرے ساتھ ٹھیک سے بات نہیں کرتیں ،میری بیوی کو گھر نہیں آنے دیا،  میں کینیڈا رہتا ہوں ،  کیا میں گناہ گار ہوں کہ میری ماں مجھ سے راضی نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  اگر واقعتًا والدہ کی ناراضی کی وجہ صرف وہی ہے جو سوال میں مذکور ہے، اس کے علاوہ ان کے ناراض ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے اور آپ اپنے تئیں ان کے حقوق کی ادائیگی اور حسنِ سلوک کا پورا خیال رکھ رہے ہیں تو  ان کی ناراضی   عقوق الوالدین (والدین کی نافرمانی) کے زمرے میں نہیں آتی، تاہم وہ اس ناراضی کے باوجود بھی قابلِ احترام ہستی  ہیں، آپ اپنی طرف سے ان کی خدمت، اطاعت اور دیگر شرعی حقوق  میں  بالکل کوتاہی نہ کریں، ان کے سامنے غصے یا بلند آواز سے بھی بات نہ کریں، ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے رہیں، اور ان کے لیے مستقل  یہ دعا کرتے رہیں:

{ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا} [بنی اسرائیل:۲۴]

 تو عنداللہ آپ ماخوذ نہیں ہوں گے۔

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد، وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك، ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة (قال وجلس) أي للاهتمام بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه (وكان متكئاً) جملة حالية، وسبب الاهتمام بذلك كون قول الزور أو شهادة الزور، أسهل وقوعاً على الناس والتهاون بها أكثر، فإن الإشراك ينبو عنه قلب المسلم. والعقوق يصرف عنه الطبع، وأما الزور فالحوامل عليه كثيرة كالعداوة والحسد وغيرهما فاحتيج إلى الاهتمام بتعظيمه، وليس ذلك لعظمهما بالنسبة إلى ما ذكر معها من الإشراك قطعاً، بل لكون مفسدة الزور متعدية إلى غير الشاهد بخلاف الشرك فإن مفسدته قاصرة غالباً. وهذا الحديث يأتي أيضاً بسنده ومتنه في الشهادات."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين، ج:6، ص:23، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208200402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں