اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ اگر اس کے پیٹ میں موجود بچہ لڑکا نہیں تو اسے ہمیشہ کے لیے طلاق ہے، چند دنوں کے بعد عورت کے دو جڑواں بچے پیدا ہوتےہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، لیکن لڑکا مردہ نکلا، کیا اب طلاق ہو جائے گی؟ براہ کرم تفصیلات سے آگاہ کریں۔
صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے بیوی کی طلاق کو پیٹ میں موجود بچے کےلڑکا نہ ہونے پر معلق کیا اور بعد میں بجاۓ لڑکے کے جڑواں بچے پیدا ہوگۓ جس ميں ايك لڑكا بھی تھا تو اس صورت میں بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،تاہم پیٹ میں بچے کا لڑکا یا لڑکی ہونا یہ عورت کے اختیار سے نہیں ہوتا اس لیے اس پر طلاق معلق کرنا انتہائی نادانی اور ناسمجھی کا کام ہے جو قابل مذمت ہے ،شوہر نے ایسا کیا اس پر توبہ واستغفار کرے اور آئندہ اس قسم کی گفتگو سے اجتناب کرے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"قال الحاكم في الكافي: إذا قال لها: إذا ولدت فأنت طالق فأسقطت سقطا قد استبان بعض خلقه طلقت فإن لم يستبن خلقه لم يقع به الطلاق كذا في غاية البيان...
ولو قال: إن كان حملك غلاما فأنت طالق واحدة وإن كان جارية فثنتين فولدت غلاما وجارية لم تطلق لأن الحمل اسم للكل فما لم يكن الكل جارية أو غلاما لم تطلق وكذا إن قال: إن كان ما في بطنك غلاما والمسألة بحالها لأن كلمة ما عامة."
(كتاب الطلاق،الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:424، ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506101217
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن