بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تم نے میرے پاس نسوار دیکھی تم طلاق یافتہ ہو


سوال

میرے شوہر نسوار کا نشہ کرتے ہیں، جب کہ میں انہیں اس سے منع کرتی ہوں، اور اس بات پر ہماری کافی بار لڑائی بھی ہو چکی ہے، ایک مرتبہ لڑائی کے دوران میرے شوہر نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ:" اگر یہ نسوار تم نے پھر میرے پاس دیکھ لی، توتم میرے اوپر طلاق یافتہ ہو۔" اب اس واقعہ کے تقریباً چار ماہ بعد میں نے ان کے پاس نسوار دیکھ لی، اور اپنے شوہر کو بولا کہ:" آپ نے ایسے کہا تھا؟" جس سے وہ انکار کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ ایک ہوئی ہے یا تین؟ اور یہ طلاق کی کونسی قسم ہے؟ اور میرے لیے اب کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا  دعوٰی اگر واقعۃ صحیح ہے  تو اس صورت  میں سائلہ پر ایک طلاق رجعی  واقع  ہوگئی ہے،البتہ شوہر اس دعوے  کامنکر ہے،(یعنی سائلہ کہہ رہی ہے کہ میرے شوہر نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ:" اگر یہ نسوار تم نے پھر میرے پاس دیکھ لی، توتم میرے اوپر طلاق یافتہ ہو۔" جب کہ شوہر اس جملے کا منکر ہے)لہذا  اختلاف کی صورت میں زوجین کو چاہیۓ کہ  اس مسئلہ کے شرعی فیصلے کے لئے قریبی کسی مستند مفتی/عالمِ دین  کو اپنا حَکم (فیصلہ کرنے والا) بنا لیں ، اور عورت اپنے دعویٰ پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ پیش کرے،  گواہوں کے ذریعے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کی صورت میں اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا، اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو پھر فیصلہ کرنے والا شوہر سے قسم لے گا،  اگرشوہرقسم سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر قسم اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا، تاہم اس صورت میں  اگر ثالث/فیصل  ایک طلاق رجعی  کے وقوع کافیصلہ کردے، تو سائلہ پر ایک طلاق رجعی کا واقع ہوجاۓ گی، اور عدت کے دوران سائلہ کے شوہر کا سائلہ سے  رجوع کرنے کی صورت میں سائلہ کے شوہر کے پاس آئندہ کے لیے دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

اعلاء السنن میں ہے:

"البينة علی المدعي و اليمين علی من أنکر  .... هذا الحديث قاعدۃ کبيرۃ من قواعد الشرع."

(کتاب الدعویٰ،15/ 350 ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(الباب الرابع والعشرون في التحکيم، 3/397ط؛ رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الفصل الثالث في تعليق الطلاق،420/1، ط: ماجدية.)

تنوير الابصار مع الدر المختار ميں ہے:

"(وتنحل) اليمين (‌بعد) ‌وجود (‌الشرط مطلقا)."

(كتاب الطلاق، باب التعليق،355/3، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وإذا طلق الرجل امرأته تطلييقةً رجعية أو رجعيتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية·"

(كتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به،470/1، ط:رشيدية)

تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(‌وينكح ‌مبانته ‌بما ‌دون ‌الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(كتاب الطلاق،باب الرجعة،409/3، ط: سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله ‌هي ‌استدامة ‌الملك ‌القائم في العدة) أي الرجعة إبقاء النكاح على ما كان مادامت في العدة لقوله تعالى {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: 231] لأن الإمساك استدامة الملك القائم لا إعادة الزائل وقوله تعالى {وبعولتهن أحق بردهن} [البقرة: 228] يدل على عدم اشتراط رضاها، وعلى اشتراط العدة إذ لا يكون بعدها بعلا، والرد يصدق حقيقة بعد انعقاد سبب زوال الملك، وإن لم يكن زائلا بعد كما بعد الزوال.

وأشار المؤلف إلى أنه ليس في الرجعة مهر ولا عوض لأنها استبقاء ملك، والمهر يقابله ثبوتا لإبقاء."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 54/4،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں