ایک عورت اپنی ساس کے ساتھ کہیں گئی،جب واپس آئی تو اس کے میاں نے اس سے کہا کہ ”اگر تم اتحاد ٹاؤن یا لانڈھی گئی یا اپنے والدین سے فون پر رابطہ کیا تو تجھے طلاق ہے“پھر وہ عورت اپنے والدین سے رابطہ نہیں کر رہی تھی تو ساس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں آپ والدین سے رابطہ کرلو،تو اس عورت نے اپنے والدین سے فون پر رابطہ کر لیا،اور پھر دس دن یا پندرہ دن بعد شوہر خود اس عورت کو اتحاد ٹاؤن لےآیا،تو کیا ان دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟اگر طلاق واقع ہو گئی ہے تو کتنی طلاق واقع ہو ں گی؟اور کیا اب وہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے کہ نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جب بیوی کو یہ الفاظ کہے کہ ”اگر تم اتحاد ٹاؤن یا لانڈھی گئی یا اپنے والدین سے فون پر رابطہ کیا تو تجھے طلاق ہے“اس سے دو طلاق معلق ہو گئی ہیں،ایسی صورت میں دو نوں شرطیں پائے جا نے کی وجہ سے بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہو چکی ہیں،البتہ عدت ( مکمل تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو، اور اگر حاملہ ہوتو بچے کی پیدائش تک ) میں شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کی صورت میں نکاح برقرار رہے گا، اور اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا گیا تو عدت ختم ہونے سے نکاح ٹوٹ جائے گا، اس کے بعد ساتھ رہنے کے لیے دوبارہ شرعی طریقے سے نکاح کرنا ضروری ہو گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،ج:1،ص:420،ط: دارالفکر)
وفيه أيضا:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ،ج:1،ص:470،ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101747
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن