بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تم بچوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی تو تم کو تین کی جگہ چھ، کہنے کا حکم


سوال

میرا اپنے شوہر کے ساتھ کسی بنا پر سخت جھگڑا ہو گیا، میں اپنے شوہر کو اُبھار رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو، اس وقت میرے شوہر نے یہ الفاظ ادا کیے: اگر تم بچوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی تو تم کو تین کی جگہ چھ، اس نے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

اس وقت بچے ٹیوشن سینٹر میں تھے، میں فوراً اپنی بڑی بہن کے گھر گئی، اور پورا واقعہ اس کو لفظ بہ لفظ سنایا، اس نے کہا کہ تم والد کے گھر چلی جاؤ، میں بچے اپنے کسی بچے کے ساتھ بھجوا دوں گی، پھر اس نے بچے بھیج دیے، میں گزشتہ ایک ماہ سے اپنے والد کے گھر ہوں۔

کیا میری طلاق ہو گئی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کے مطالبہ طلاق پر  یہ جملہ کہا: اگر تم بچوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی تو تم کو تین کی جگہ چھ، تو چوں کہ یہ جملہ کنایہ کے اس قبیل میں سے ہے کہ نیت یا مذاکرہ طلاق میں کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ اس لیے اس جملہ سے بیوی کی تین طلاقیں معلق ہو گئی تھیں، پھر جب بیوی بچوں کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی اور شرط پوری کر دی تو اس کے اوپر تین طلاقیں واقع ہو گئیں، نکاح ختم ہو گیا، اب دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو قال: أنت مني ثلاثا طلقت إن نوى أو كان في مذاكرة الطلاق"

(کتاب الطلاق ، جلد : 3، صفحه : 275 ، طبع  : سعید)

  فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل شاجر مع امرأته فقال لها بالفارسية ‌هزار ‌طلاق ‌ترا ولم يزد على هذا  وقع عليها ثلاث تطليقات."

(كتاب الطلاق ، الباب الثاني ، الفصل السابع ، ج : 1 ، ص : 381 ، طبع : دار الفكر)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"و في الفتاوي: رجل قال لامرءته: "ترا يكي و ترا سه" أو قال: "تو يكي تو سه"، قال أبو القاسم الصفار: لايقع شيء، و قال الصدر الشهيد: يقع إذا نوی، قال: و به يفتي، قال القاضي: و ينبغي أن يكون الجواب على التفصيل: إن كان ذلك في حال مذاكرة الطلاق أو في حال الغضب يقع الطلاق و إن لم يكن لايقع إلا بالنية، كما قال بالعربية: أنت واحدة."

(کتاب الطلاق، الفصل الثاني في الكنايات، الجنس الرابع في قوله ترايكي تا سه ، ج : 2، ص : 98 ، طبع : رشیدیة)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"انت الثلاث" سے وقوعِ طلاق کو صرف صدر شہید ہی نے مفتیٰ بہ قرار نہیں دیا، بلکہ ابو القاسم کے سوا سب کا مختار یہی ہے کہ اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، جب کہ مذاکرہ طلاق ہو یا نیتِ طلاق ہو۔"

(کتاب الطلاق ، جلد : 5 ، صفحہ : 176 ، طبع : سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601100302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں